سنن النسائي - حدیث 4525

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ صحيح أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ وَأَبُو سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ وَلَا تَبْتَاعُوا الثَّمَرَ بِالتَّمْرِ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ مِثْلِهِ سَوَاءً

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4525

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: پھل پکنے سے پہلے اس کی بیع کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پھل کا سودا نہ کرو حتی کہ اس کی صلاحیت ظاہر ہو جائے اور تازہ پھل (تازہ کھجوریں) خشک کھجورں کے عوض نہ خریدو۔‘‘ ابن شہاب (امام زہری) نے کہا کہ مجھے حدیث بیان کی سالم بن عبداللہ نے اپنے والد محترم حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا … پھر اسی (حدیث ابوہریرہ) کی مثل پوری حدیث بیان فرمائی۔
تشریح : (۱) امام محمد بن مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ یہ حدیث تین اساتذہ، یعنی حضرت سعید بن مسیب، ابو سلمہ اور حضرت سالم سے بیان فرماتے ہیں لیکن پہلے دونوں استاد (سعید بن مسیب اور ابو سلمہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ رسول اللہ ﷺ سے جبکہ استاد سالم رحمہ اللہ یہ حدیث اپنے والد محترم حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان فرماتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ابن شہاب دونوں سندوں سے یہ روایت موصولاً بیان فرماتے ہیں۔ پہلی صورت میں حدیث مسند ابوہریرہ ہے اور دوسری صورت میں مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ۔ (۲) ’’تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض نہ خریدو‘‘ کیونکہ جب دونوں طرف ایک جنس ہو تو کمی بیشی درست نہیں ہوتی بلکہ اس صورت میں برابری ضروری ہے مگر خشک اور تازہ کھجوروں میں برابری ممکن نہیں کیونکہ تازہ کھجوریں خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتی ہے، لہٰذا انہیں الگ الگ خریدا اور بیچا جائے۔ (۱) امام محمد بن مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ یہ حدیث تین اساتذہ، یعنی حضرت سعید بن مسیب، ابو سلمہ اور حضرت سالم سے بیان فرماتے ہیں لیکن پہلے دونوں استاد (سعید بن مسیب اور ابو سلمہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ رسول اللہ ﷺ سے جبکہ استاد سالم رحمہ اللہ یہ حدیث اپنے والد محترم حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان فرماتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ابن شہاب دونوں سندوں سے یہ روایت موصولاً بیان فرماتے ہیں۔ پہلی صورت میں حدیث مسند ابوہریرہ ہے اور دوسری صورت میں مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ۔ (۲) ’’تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض نہ خریدو‘‘ کیونکہ جب دونوں طرف ایک جنس ہو تو کمی بیشی درست نہیں ہوتی بلکہ اس صورت میں برابری ضروری ہے مگر خشک اور تازہ کھجوروں میں برابری ممکن نہیں کیونکہ تازہ کھجوریں خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتی ہے، لہٰذا انہیں الگ الگ خریدا اور بیچا جائے۔