سنن النسائي - حدیث 4523

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4523

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: پھل پکنے سے پہلے اس کی بیع کا بیان حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پھلو کا سودا نہ کرو حتی کہ ان کی صلاحیت معلوم ہو جائے۔ آپ نے بیچنے والے کو بھی روکا اور خریدنے والے کو بھی۔‘‘
تشریح : (۱) پھل سے مقصود تو اسے پکنے کے بعد کھانا ہے نہ کہ کچے کو۔ اگر کچا پھل خریدا جائے گا تو پکنے تک اس پر کئی آفتیں آ سکتی ہیں۔ وہ سوکھ سکتا ہے، اسے کیڑا لگ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ، لہٰذا کل کلاں کو تنازع پیدا ہو سکتا ہے ک جناب پھل تو ضائع ہو گیا۔ رقم کس چیز کی دوں؟ اس قسم کے سودے میں رقم عموماً پھل کی کٹائی کے وقت ہی دی جاتی ہے، لہٰذا ان تنازعات کے پیش نظر اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا گیا جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ بات صراحتاً فرمائی ہے، البتہ تنازع کا خطرہ نہ ہو، مثلاً: کچا پھل ہی توڑ کر استعمال کرنا ہو، جیسے کچے آم اچار کے لیے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ کچا بھی پکے کے قائم مقام ہے۔ اس کے نقصان کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ اسی طرح غلے والی فصل کو پکنے سے پہلے نہیں بیچا جا سکتا مگر چارے والی فصل کو کچا ہی بیچا جا سکتا ہے کیونکہ اسے کچا ہی کاٹنا ہوتا ہے۔ (۲) یہاں پھل پکنے سے مراد اس کی وہ کیفیت ہے جس کے بعد اس پر آفت کا احتمال نہیں رہتا، نہ یہ کہ وہ بالکل کھانے والی حالت میں ہو، مثلاً: آم جب جسامت میں پورا ہو جاتا ہے تو اسے توڑ کر کچھ مسالا لگایا جاتا ہے جس سے وہ پک جاتا ہے اور کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ تو ایسی کیفیت میں آموں کی خرید و فروخت درست ہے اگرچہ وہ کھانے کے قابل تو مسالا لگانے سے ہوں گے۔ یہی مطلب ہے ان کی صلاحیت ظاہر ہونے کا۔ گویا پھل آفت سے محفوظ ہو تو پکنے سے پہلے بھی فروخت ہو سکتا ہے۔ (۱) پھل سے مقصود تو اسے پکنے کے بعد کھانا ہے نہ کہ کچے کو۔ اگر کچا پھل خریدا جائے گا تو پکنے تک اس پر کئی آفتیں آ سکتی ہیں۔ وہ سوکھ سکتا ہے، اسے کیڑا لگ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ، لہٰذا کل کلاں کو تنازع پیدا ہو سکتا ہے ک جناب پھل تو ضائع ہو گیا۔ رقم کس چیز کی دوں؟ اس قسم کے سودے میں رقم عموماً پھل کی کٹائی کے وقت ہی دی جاتی ہے، لہٰذا ان تنازعات کے پیش نظر اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا گیا جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ بات صراحتاً فرمائی ہے، البتہ تنازع کا خطرہ نہ ہو، مثلاً: کچا پھل ہی توڑ کر استعمال کرنا ہو، جیسے کچے آم اچار کے لیے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ کچا بھی پکے کے قائم مقام ہے۔ اس کے نقصان کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ اسی طرح غلے والی فصل کو پکنے سے پہلے نہیں بیچا جا سکتا مگر چارے والی فصل کو کچا ہی بیچا جا سکتا ہے کیونکہ اسے کچا ہی کاٹنا ہوتا ہے۔ (۲) یہاں پھل پکنے سے مراد اس کی وہ کیفیت ہے جس کے بعد اس پر آفت کا احتمال نہیں رہتا، نہ یہ کہ وہ بالکل کھانے والی حالت میں ہو، مثلاً: آم جب جسامت میں پورا ہو جاتا ہے تو اسے توڑ کر کچھ مسالا لگایا جاتا ہے جس سے وہ پک جاتا ہے اور کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ تو ایسی کیفیت میں آموں کی خرید و فروخت درست ہے اگرچہ وہ کھانے کے قابل تو مسالا لگانے سے ہوں گے۔ یہی مطلب ہے ان کی صلاحیت ظاہر ہونے کا۔ گویا پھل آفت سے محفوظ ہو تو پکنے سے پہلے بھی فروخت ہو سکتا ہے۔