سنن النسائي - حدیث 4522

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْحَصَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4522

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: کنکریوں والی بیع کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کنکریوں والی بیع اور ہر دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔
تشریح : (۱) بَیْعِ الْحِصَاۃِ، لفظ بَیْعٌ، بَاعَ یَبِیْعُ کا مصدر ہے اور اَلْحِصَاۃُ جمع ہے اَلْحِصٰی کی۔ یہ مصدر کی اضافت اپنے مفعول کی طرف ہرگز نہیں بلکہ مصدر کی اضافت نوع کی طرف ہے، اس لیے باب کے معنی ہیں: ’’کنکریوں والی بیع‘‘ اس کی کئی صورتیں ہوا کرتی تھیں، مثلاً: بائع مشتری سے کہتا کہ تو کنکری مار، وہ جس کپڑے کو یا دوسری اشیائ، جو وہ بیچنا چاہتا، کو کنکری جا لگے گی تو اتنی رقم میں وہ چیز تیری۔ اس میں نہ تو واپسی کا کوئی اختیار ہوتا اور نہ خیارِ مجلس ہی ہوتا اور نہ کپڑے وغیرہ کے کسی نقص اور عیب کی بابت کچھ معلوم ہوتا، اس لیے یہ بیع دراصل غرر اور دھوکے ہی کی بیع تھی جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ ایک صورت یہ ہوتی کہ بائع مشتری سے کہتا کہ کنکری پھینکو جہاں تک وہ پہنچے گی وہاں تک اپنی زمین تجھے اتنی رقم کے عوض بیچوں گا۔ یہ مجہول چیز کی بیع ہے، اس لیے ناجائز ہے۔ یہ صورت بھی ہوتی تھی کہ بیچنے والا شخص مٹھی میں کنکریاں بند کر لیتا اور ککہتا کہ جتنی کنکریاں میری مٹھی سے نکلیں گی، اتنی چیزیں مبیع سے میری ہوں گی۔ یا وہ کوئی سودا فروخت کرتا اور کنکریاں مٹھی میں بند کر کے کہتا کہ میری مٹھی میں جتنی کنکریاں ہوں گی اتنے ہی درہم یا دینار لوں گا، یعنی جو بھی طے ہوتا۔ کبھی وہ لوگ اس طرح بھی کیا کرتے کہ خرید و فروخت کرنے والوں میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیتا اور کہتا کہ جب بھی کنکریاں گریں گی، بیع واجب ہو جائے گی۔ کبھی وہ لوگ سودا کرتے اور کنکری پھینکنے ہی کو بیع کا واجب ہونا قرار دیتے۔ یہ تمام اقوال امام نووی اور امام ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ نے (شرح صحیح مسلم، البیوع، باب بطلان بیع الحصاۃ و البیع الذی فیہ الغرر: ۱۰/۲۲۰ میں) بیان فرمائے ہیں۔ (۲) حدیث کے آخر میں ہر دھوکے والی بیع سے منع کر دیا گیا ہے، مثلاً: پانی کے اندر موجود مچھلی یا فضا کے اندر اڑتے پرندے کی بیع جسے ابھی تک شکار نہیں کیا گیا۔ اللہ جانے وہ شکار ہو سکے یا نہ، اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کی بیع۔ نہ معلوم وہ مل سکے یا نہ۔ جو چیز ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی، اس کی بیع بھی اسی کے تحت آتی ہے وغیرہ وغیرہ، البتہ اگر تھوڑا بہت ابہام ہو جس سے بچنا ممکن نہیں تو اس کی گنجائش ہے، مثلاً: ماہانہ یا یومیہ کرائے پر کوئی چیز لینا، حالانکہ سب مہینے، اسی طرح سب دن برابر نہیں ہوتے۔ ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ مجبوری ہے، لہٰذا بلاتکلف جائز ہے، نیز ان میں دھوکا دہی کا تصور نہیں جو کہ منع کی اصل بنیاد ہے۔ (۱) بَیْعِ الْحِصَاۃِ، لفظ بَیْعٌ، بَاعَ یَبِیْعُ کا مصدر ہے اور اَلْحِصَاۃُ جمع ہے اَلْحِصٰی کی۔ یہ مصدر کی اضافت اپنے مفعول کی طرف ہرگز نہیں بلکہ مصدر کی اضافت نوع کی طرف ہے، اس لیے باب کے معنی ہیں: ’’کنکریوں والی بیع‘‘ اس کی کئی صورتیں ہوا کرتی تھیں، مثلاً: بائع مشتری سے کہتا کہ تو کنکری مار، وہ جس کپڑے کو یا دوسری اشیائ، جو وہ بیچنا چاہتا، کو کنکری جا لگے گی تو اتنی رقم میں وہ چیز تیری۔ اس میں نہ تو واپسی کا کوئی اختیار ہوتا اور نہ خیارِ مجلس ہی ہوتا اور نہ کپڑے وغیرہ کے کسی نقص اور عیب کی بابت کچھ معلوم ہوتا، اس لیے یہ بیع دراصل غرر اور دھوکے ہی کی بیع تھی جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ ایک صورت یہ ہوتی کہ بائع مشتری سے کہتا کہ کنکری پھینکو جہاں تک وہ پہنچے گی وہاں تک اپنی زمین تجھے اتنی رقم کے عوض بیچوں گا۔ یہ مجہول چیز کی بیع ہے، اس لیے ناجائز ہے۔ یہ صورت بھی ہوتی تھی کہ بیچنے والا شخص مٹھی میں کنکریاں بند کر لیتا اور ککہتا کہ جتنی کنکریاں میری مٹھی سے نکلیں گی، اتنی چیزیں مبیع سے میری ہوں گی۔ یا وہ کوئی سودا فروخت کرتا اور کنکریاں مٹھی میں بند کر کے کہتا کہ میری مٹھی میں جتنی کنکریاں ہوں گی اتنے ہی درہم یا دینار لوں گا، یعنی جو بھی طے ہوتا۔ کبھی وہ لوگ اس طرح بھی کیا کرتے کہ خرید و فروخت کرنے والوں میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں کنکریاں لیتا اور کہتا کہ جب بھی کنکریاں گریں گی، بیع واجب ہو جائے گی۔ کبھی وہ لوگ سودا کرتے اور کنکری پھینکنے ہی کو بیع کا واجب ہونا قرار دیتے۔ یہ تمام اقوال امام نووی اور امام ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ نے (شرح صحیح مسلم، البیوع، باب بطلان بیع الحصاۃ و البیع الذی فیہ الغرر: ۱۰/۲۲۰ میں) بیان فرمائے ہیں۔ (۲) حدیث کے آخر میں ہر دھوکے والی بیع سے منع کر دیا گیا ہے، مثلاً: پانی کے اندر موجود مچھلی یا فضا کے اندر اڑتے پرندے کی بیع جسے ابھی تک شکار نہیں کیا گیا۔ اللہ جانے وہ شکار ہو سکے یا نہ، اسی طرح بھاگے ہوئے غلام کی بیع۔ نہ معلوم وہ مل سکے یا نہ۔ جو چیز ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی، اس کی بیع بھی اسی کے تحت آتی ہے وغیرہ وغیرہ، البتہ اگر تھوڑا بہت ابہام ہو جس سے بچنا ممکن نہیں تو اس کی گنجائش ہے، مثلاً: ماہانہ یا یومیہ کرائے پر کوئی چیز لینا، حالانکہ سب مہینے، اسی طرح سب دن برابر نہیں ہوتے۔ ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ مجبوری ہے، لہٰذا بلاتکلف جائز ہے، نیز ان میں دھوکا دہی کا تصور نہیں جو کہ منع کی اصل بنیاد ہے۔