سنن النسائي - حدیث 4517

كِتَابُ الْبُيُوعِ تَفْسِيرُ ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى بْنِ بَهْلُولٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدًا يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُلَامَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ وَالْمُلَامَسَةُ أَنْ يَتَبَايَعَ الرَّجُلَانِ بِالثَّوْبَيْنِ تَحْتَ اللَّيْلِ يَلْمِسُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمَا ثَوْبَ صَاحِبِهِ بِيَدِهِ وَالْمُنَابَذَةُ أَنْ يَنْبِذَ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ الثَّوْبَ وَيَنْبِذَ الْآخَرُ إِلَيْهِ الثَّوْبَ فَيَتَبَايَعَا عَلَى ذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4517

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: اس (منابذہ) کی تفسیر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منابذہ اور ملامسہ سے منع فرمایا۔ ملامسہ یہ ہے کہ دو آدمی رات کے اندھیرے میں دو کپڑوں کا اس طرح سودا کریں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے کپڑے کو ہاتھ سے چھوئے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی طرف کپڑا پھینکے اور دوسرا اس کی طرف کپڑا پھینکے۔ بس اتنے میں سودا ہو جائے۔
تشریح : کپڑا تو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے ورنہ کوئی بھی چیز اس طریقے سے بیچی جائے یا خریدی جائے، اسے ملامسہ اور منابذہ کہا جائے گا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دونوں طرف ایک ہی جنس کی چیزیں ہوں جیسا کہ تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے بلکہ نقدی کے ساتھ سودا ہو، تب بھی یہی حکم ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جس سودے میں بھی ابہام ہو یا دھوکا دہی کا امکان ہو، وہ منع ہے کیونکہ اس قسم کا سودا بعد میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنتا ہے، نیز اس کی بنیاد خود غرضی اور دھوکا دہی پر ہے اور یہ دونوں انسانیت اور اسلام کے خلاف ہیں۔ کپڑا تو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے ورنہ کوئی بھی چیز اس طریقے سے بیچی جائے یا خریدی جائے، اسے ملامسہ اور منابذہ کہا جائے گا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دونوں طرف ایک ہی جنس کی چیزیں ہوں جیسا کہ تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے بلکہ نقدی کے ساتھ سودا ہو، تب بھی یہی حکم ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جس سودے میں بھی ابہام ہو یا دھوکا دہی کا امکان ہو، وہ منع ہے کیونکہ اس قسم کا سودا بعد میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنتا ہے، نیز اس کی بنیاد خود غرضی اور دھوکا دہی پر ہے اور یہ دونوں انسانیت اور اسلام کے خلاف ہیں۔