سنن النسائي - حدیث 4514

كِتَابُ الْبُيُوعِ تَفْسِيرُ ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُلَامَسَةِ لَمْسِ الثَّوْبِ لَا يَنْظُرُ إِلَيْهِ وَعَنْ الْمُنَابَذَةِ وَهِيَ طَرْحُ الرَّجُلِ ثَوْبَهُ إِلَى الرَّجُلِ بِالْبَيْعِ قَبْلَ أَنْ يُقَلِّبَهُ أَوْ يَنْظُرَ إِلَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4514

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: اس (ملامسہ) کی تفسیر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔ ملامسہ یہ ہے کہ کپڑے کو چھوا جائے، کھول کر نہ دیکھا جائے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ بیچنے والا کپڑے کو خریدار کی طرف پھینک دے اور سودا ہو جائے بغیر اس کے کہ وہ اس کپڑے کو الٹ پلٹ کر دیکھے۔
تشریح : رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں اہل جاہلیت دھوکے والے سودے کرتے تھے۔ آپ نے ان سب کو ممنوع قرار دے دیا۔ یہ ملامسہ اور منابذہ بھی اسی قسم کے جاہلی سودے تھے جن میں صاف دھوکا ہوتا تھا، مثلاً: بیچنے والا خریدنے والے کو کہتا کہ جس کپڑے کو تمہارا ہاتھ لگ گیا، وہ اتنے میں تجھے فروخت، خواہ کسی کپڑے کو ہاتھ لگ جاتا، خواہ وہ اندر سے بالکل پھٹا ہوتا۔ صرف ہاتھ لگنے سے بیع پکی ہو جاتی تھی۔ کھول کر دیکھنے کی اجاز ت نہیں ہوتی تھی اور بعد میں وہ واپس بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے ملامسہ کہتے تھے۔ اسی طرح بیچنے والا خریدنے والے کی طرف کوئی چیز (کپڑا یا کچھ اور) پھینکتا، اتنے سے وہ سودا پکا ہو جاتا۔ اس چیز کو پرکھنے اور جانچنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں وہ چیز بھی واپس نہیں ہو سکتی تھی، خواہ وہ کتنی ہی عیب دار کیوں نہ ہوتی۔ اسے منابذہ کہتے تھے۔ ظاہر ہے شریعت اس قسم کے مبہم سودے اور دھوکے بازی کو کیسے جائز قرار دے سکتی تھی، لہٰذا سختی کے ساتھ ان سے روک دیا گیا۔ منابذہ کی ایک اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ خریدار کنکری پھینکتا، کنکری جس چیز پر جا گرتی، اس کا سودا ہو جاتا تھا بغیر تحقیق کیے کہ وہ چیز کیسی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں اہل جاہلیت دھوکے والے سودے کرتے تھے۔ آپ نے ان سب کو ممنوع قرار دے دیا۔ یہ ملامسہ اور منابذہ بھی اسی قسم کے جاہلی سودے تھے جن میں صاف دھوکا ہوتا تھا، مثلاً: بیچنے والا خریدنے والے کو کہتا کہ جس کپڑے کو تمہارا ہاتھ لگ گیا، وہ اتنے میں تجھے فروخت، خواہ کسی کپڑے کو ہاتھ لگ جاتا، خواہ وہ اندر سے بالکل پھٹا ہوتا۔ صرف ہاتھ لگنے سے بیع پکی ہو جاتی تھی۔ کھول کر دیکھنے کی اجاز ت نہیں ہوتی تھی اور بعد میں وہ واپس بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے ملامسہ کہتے تھے۔ اسی طرح بیچنے والا خریدنے والے کی طرف کوئی چیز (کپڑا یا کچھ اور) پھینکتا، اتنے سے وہ سودا پکا ہو جاتا۔ اس چیز کو پرکھنے اور جانچنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں وہ چیز بھی واپس نہیں ہو سکتی تھی، خواہ وہ کتنی ہی عیب دار کیوں نہ ہوتی۔ اسے منابذہ کہتے تھے۔ ظاہر ہے شریعت اس قسم کے مبہم سودے اور دھوکے بازی کو کیسے جائز قرار دے سکتی تھی، لہٰذا سختی کے ساتھ ان سے روک دیا گیا۔ منابذہ کی ایک اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ خریدار کنکری پھینکتا، کنکری جس چیز پر جا گرتی، اس کا سودا ہو جاتا تھا بغیر تحقیق کیے کہ وہ چیز کیسی ہے۔