سنن النسائي - حدیث 451

كِتَابُ الصَّلَاةِ فَرْضُ الصَّلَاةِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلَافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيهِ منكر أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ خَطْوُهَا عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهَا فَرَكِبْتُ وَمَعِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَسِرْتُ فَقَالَ انْزِلْ فَصَلِّ فَفَعَلْتُ فَقَالَ أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ صَلَّيْتَ بِطَيْبَةَ وَإِلَيْهَا الْمُهَاجَرُ ثُمَّ قَالَ انْزِلْ فَصَلِّ فَصَلَّيْتُ فَقَالَ أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ صَلَّيْتَ بِطُورِ سَيْنَاءَ حَيْثُ كَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ قَالَ انْزِلْ فَصَلِّ فَنَزَلْتُ فَصَلَّيْتُ فَقَالَ أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ صَلَّيْتَ بِبَيْتِ لَحْمٍ حَيْثُ وُلِدَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِي الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمْ السَّلَام فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا فِيهَا آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَإِذَا فِيهَا ابْنَا الْخَالَةِ عِيسَى وَيَحْيَى عَلَيْهِمَا السَّلَام ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَإِذَا فِيهَا يُوسُفُ عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ فَإِذَا فِيهَا هَارُونُ عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ فَإِذَا فِيهَا إِدْرِيسُ عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ فَإِذَا فِيهَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَإِذَا فِيهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام ثُمَّ صُعِدَ بِي فَوْقَ سَبْعِ سَمَوَاتٍ فَأَتَيْنَا سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى فَغَشِيَتْنِي ضَبَابَةٌ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا فَقِيلَ لِي إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلَاةً فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ فَرَجَعْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَلَمْ يَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ كَمْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ قُلْتُ خَمْسِينَ صَلَاةً قَالَ فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَقُومَ بِهَا أَنْتَ وَلَا أُمَّتُكَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا ثُمَّ أَتَيْتُ مُوسَى فَأَمَرَنِي بِالرُّجُوعِ فَرَجَعْتُ فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا ثُمَّ رُدَّتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ قَالَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّهُ فَرَضَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ صَلَاتَيْنِ فَمَا قَامُوا بِهِمَا فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَسَأَلْتُهُ التَّخْفِيفَ فَقَالَ إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلَاةً فَخَمْسٌ بِخَمْسِينَ فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنْ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى صِرَّى فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ ارْجِعْ فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنْ اللَّهِ صِرَّى أَيْ حَتْمٌ فَلَمْ أَرْجِعْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 451

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل نماز کی فرضیت کا بیان اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس(کے متن)میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر پہنچتی تھی۔ میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ اس پر سوار ہوگیا۔ میں کچھ چلا تو جبریل علیہ السلام نے کہا: اترو! نماز پڑھو! میں نے نماز پڑھی۔ کہنے لگے: آپ جانتے ہیں، کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے مدینہ طیبہ میں نماز پڑھی ہے اور اسی کی طرف آپ ہجرت فرمائیں گے، پھر کہنے لگے: اترو! نماز پڑھو۔ میں نے پڑھی۔ کہنے لگے: آپ جانتے ہیں، کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طورسینا میں نماز پڑھی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا۔ پھر کہنے لگے: اترو! نماز پڑھو! میں اترا اور نماز پڑھی۔ کہنے لگے: آپ جانتے ہیں، کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا۔ وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام جمع کیے گئے تھے، چنانچہ مجھے جبریل علیہ السلام نے آگے کر دیا۔ میں نے ان کی امامت کی۔ پھر مجھے لے کر قریبی (پہلے) آسمان کی طرف چڑھے۔ اس میں آدم علیہ السلام تھے، پھر وہ مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے چڑھے۔ اس میں دو خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام تھے، پھر وہ مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر چڑھے تو اس میں یوسف علیہ السلام تھے، پھر وہ مجھے چوتھے آسمان کی طرف لے کر چڑھے تو اس میں ہارون علیہ السلام تھے، پھر وہ مجھے پانچویں آسمان کی طرف لے کر چڑھے تو اس میں ادریس علیہ السلام تھے، پھر وہ مجھے چھٹے آسمان کی طرف لے کر چڑھے تو اس میں موسیٰ علیہ السلام تھے، پھر وہ مجھے ساتویں آسمان کی طرف لے کر چڑھے تو وہاں ابراہیم علیہ السلام تھے۔ پھر وہ مجھے ساتویں آسمان سے اوپر لے گئے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ وہاں مجھے ایک بادل نے ڈھانپ لیا۔ میں سجدے میں گر پڑا۔ مجھے کہا گیا: تحقیق میں نے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے تھے آپ اور آپ کی امت پچاس (۵۰) نمازیں فرض کر دی تھیں، لہٰذا آپ اور آپ کی امت یہ نمازیں پڑھیں۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی طرف لوٹا تو انھوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر اور آپ کی امت پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ میں نے کہا: پچاس۔ انھوں نے کہا: تحقیق آپ اتنی نمازیں پڑھ سکتے ہیں نہ آپ کی امت، اس لیے رب تعالیٰ کے پاس جائیں اور کمی کا سوال کریں۔ میں اپنے رب تعالیٰ کے پاس گیا (اور کمی کا سوال کیا) تو اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کردیں۔ میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے دوبارہ جانے کو کہا۔ میں پھر گیا تو اللہ نے مزید دس کم کردیں۔ میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر واپس جانے کو کہا۔ میں پھر گیا تو اللہ تعالیٰ نے مزید دس کم کردیں۔ آخرکار پانچ رہ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: پھر اپنے رب کے پاس جائیں اورمزید کمی کا سوال کریں۔ تحقیق بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض تھیں، وہ دو بھی نہ پڑھ سکے۔ میں پھر رب تعالیٰ کے پاس گیا اورمزید کمی کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے جس دن زمین و آسمان پیدا کیے تھے، آپ پر اور آپ کی امت پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں۔ اب پچاس کی بجائے پانچ ہیں۔ سو آپ اور آپ کی امت انھیں پڑھا کریں۔ میں نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی ہیں۔ چنانچہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا تو انھوں نے کہا: دوبارہ جائیں لیکن مجھے علم تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی ہیں، لہٰذا میں واپس نہ لوٹا۔‘‘
تشریح : شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت اس سیاق سے منکر ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس روایت کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: [فیھا عرابۃ ونکارۃ جدا] ’’اس طریق میں سخت غرابت و نکارت ہے۔‘‘ اس کی سند میں ایک تو یزید بن عبدالرحمٰن بن ابی مالک دمشقی ہے جو صدوق ہے لیکن کبھی کبھار وہم کا شکار ہوجاتا تھا، دوسرے اس سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالعزیز تنوخی ہیں، اگرچہ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔ (تقریب) لہٰذا اس روایت میں مدینہ طیبہ، طورسینا اور بیت اللحم میں اترنے اور وہاں نماز پڑھنے کا واقعہ درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الاسراء والمعراج للالبانی، ص:۴۴) شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت اس سیاق سے منکر ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس روایت کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: [فیھا عرابۃ ونکارۃ جدا] ’’اس طریق میں سخت غرابت و نکارت ہے۔‘‘ اس کی سند میں ایک تو یزید بن عبدالرحمٰن بن ابی مالک دمشقی ہے جو صدوق ہے لیکن کبھی کبھار وہم کا شکار ہوجاتا تھا، دوسرے اس سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالعزیز تنوخی ہیں، اگرچہ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔ (تقریب) لہٰذا اس روایت میں مدینہ طیبہ، طورسینا اور بیت اللحم میں اترنے اور وہاں نماز پڑھنے کا واقعہ درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الاسراء والمعراج للالبانی، ص:۴۴)