سنن النسائي - حدیث 4506

كِتَابُ الْبُيُوعِ سَوْمُ الرَّجُلِ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ صحيح حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَبِيعَنَّ حَاضِرٌ لِبَادٍ وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا يُسَاوِمْ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ وَلَا يَخْطُبْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ وَلَا تَسْأَلْ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْتَفِئَ مَا فِي إِنَائِهَا وَلِتُنْكَحَ فَإِنَّمَا لَهَا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4506

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: اپنے مسلمان بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے، دھوکے سے بھائو نہ بڑھائو، کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے بھائو پر بھائو نہ کرے اور نہ اس کے پیغام نکاح پر پیغام بھیجے اور نہ کوئی عورت اپنی (سوکن) بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کے برتن کو انڈیل دے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ بھی نکاح کرے جو اس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے، اسے مل جائے گا۔‘‘
تشریح : (۱) مصنف رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ سودے میں خرید و فروخت، دونوں چیزیں ہی آتی ہیں۔ تفصیل اس طرح ہے کہ کوئی شخص خریدار سے یہ کہے کہ اس سے یہ چیز نہ خرید۔ میں تجھے اس سے سستی دیتا ہوں اور نہ کوئی بیچنے والے سے یہ کہے کہ اسے نہ بیچ، میں یہ چیز اس سے زیادہ قیمت میں تجھ سے خرید لوں گا۔ یہ دونوں کام حرام ہیں۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ اس سے بھی روکتی ہے کہ کسی دیہاتی شخص کی چیز کوئی شہری بیچے، اس لیے کہ شہری کے لیے حرام ہے کہ وہ دیہاتی سے کہے کہ تو اپنا مال میرے پاس رکھ دے جب قیمت زیادہ ہو جائے گی، میں تیری چیز مہنگے داموں بیچ دوں گا۔ ہاں، اگر دیہاتی شخص کو منڈی وغیرہ کے بھائو کا کوئی علم نہیں یا یہ خطرہ ہے کہ خیردار اسے ’’پینڈو‘‘ سمجھتے ہوئے دھوکا دے کر اس کی چیز سستے داموں اس سے خرید لے گا او اسے لاعلمی کی وجہ سے اپنی چیز کی اصل اور مناسب قیمت بھی نہیں ملے گی اور کوئی شہری ازراہِ ہمدردی اس کا سودا، کما حقہ، مناسب قیمت کے عوض بیچ دے تو یہ عمل قابل تعریف ہے اور ایسا شخص عنداللہ اجر و ثواب کا حق دار ہے۔ ممانعت وہاں ہے جہاں شہری اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں ہو، یدہاتی کی خیر خواہی سرے سے مطلوب ہی نہ ہو۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ بیع نجش کی حرمت کی بھی دلیل ہے۔ بیع نجش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کا مقصد چیز خریدنا بالکل نہیں ہوتا لیکن دو سودا کرنے والوں کے پاس آ کر وہ بکنے والی چیز کی زیادہ قیمت لگا دیتا ہے تاکہ خریدار دھوکا کھا جائے اور ایک کم قیمت چیز، زیادہ قیمت میں خرید لے۔ ایسے عموماً دکانداروں کے ’’پالتو‘‘ ایجنٹ ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی اس ناجائز حرکت اور غیر شرعی کام کے باقاعدہ پیسے لیتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر وہ صورت ناجائز اور حرام ہے جس سے دوسرے مسلمان کو نقصان پہنچانا مقصود ہو اور وہ صورت جائز اور ممدوح ہے جس میں دوسرے مسلمان کی خیر خواہی مطلوب ہو اور اس سے شریعت کا کوئی تقاضا بھی مجروح نہ ہوتا ہو۔ و اللہ اعلم۔ (۴) یہ حدیث مبارکہ اس اہم اصول کی بھی صریح دلیل ہے کہ شریعت نے ہر اس سبب اور ذریعے کو قطعی طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جو باہمی بغض و عناد کی طرف لے جانے والا ہو یا بخیلی، حسد اور کینے وغیرہ تک پہنچا دینے والا ہو۔ الغرض! شریعت مطہرہ نے ہر وہ دروازہ مسدود کر دیا ہے جو مذکورہ یا ان جیسی دیگر اشیاء کی طرف کھلتا ہو۔ (۵) ’‘’برتن انڈیل دے‘‘ یعنی اس کو نکاح کے فوائد سے محروم کر دے۔ باقی دیکھئے روایت: ۴۴۹۶۔ (۱) مصنف رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ سودے میں خرید و فروخت، دونوں چیزیں ہی آتی ہیں۔ تفصیل اس طرح ہے کہ کوئی شخص خریدار سے یہ کہے کہ اس سے یہ چیز نہ خرید۔ میں تجھے اس سے سستی دیتا ہوں اور نہ کوئی بیچنے والے سے یہ کہے کہ اسے نہ بیچ، میں یہ چیز اس سے زیادہ قیمت میں تجھ سے خرید لوں گا۔ یہ دونوں کام حرام ہیں۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ اس سے بھی روکتی ہے کہ کسی دیہاتی شخص کی چیز کوئی شہری بیچے، اس لیے کہ شہری کے لیے حرام ہے کہ وہ دیہاتی سے کہے کہ تو اپنا مال میرے پاس رکھ دے جب قیمت زیادہ ہو جائے گی، میں تیری چیز مہنگے داموں بیچ دوں گا۔ ہاں، اگر دیہاتی شخص کو منڈی وغیرہ کے بھائو کا کوئی علم نہیں یا یہ خطرہ ہے کہ خیردار اسے ’’پینڈو‘‘ سمجھتے ہوئے دھوکا دے کر اس کی چیز سستے داموں اس سے خرید لے گا او اسے لاعلمی کی وجہ سے اپنی چیز کی اصل اور مناسب قیمت بھی نہیں ملے گی اور کوئی شہری ازراہِ ہمدردی اس کا سودا، کما حقہ، مناسب قیمت کے عوض بیچ دے تو یہ عمل قابل تعریف ہے اور ایسا شخص عنداللہ اجر و ثواب کا حق دار ہے۔ ممانعت وہاں ہے جہاں شہری اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں ہو، یدہاتی کی خیر خواہی سرے سے مطلوب ہی نہ ہو۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ بیع نجش کی حرمت کی بھی دلیل ہے۔ بیع نجش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کا مقصد چیز خریدنا بالکل نہیں ہوتا لیکن دو سودا کرنے والوں کے پاس آ کر وہ بکنے والی چیز کی زیادہ قیمت لگا دیتا ہے تاکہ خریدار دھوکا کھا جائے اور ایک کم قیمت چیز، زیادہ قیمت میں خرید لے۔ ایسے عموماً دکانداروں کے ’’پالتو‘‘ ایجنٹ ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی اس ناجائز حرکت اور غیر شرعی کام کے باقاعدہ پیسے لیتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر وہ صورت ناجائز اور حرام ہے جس سے دوسرے مسلمان کو نقصان پہنچانا مقصود ہو اور وہ صورت جائز اور ممدوح ہے جس میں دوسرے مسلمان کی خیر خواہی مطلوب ہو اور اس سے شریعت کا کوئی تقاضا بھی مجروح نہ ہوتا ہو۔ و اللہ اعلم۔ (۴) یہ حدیث مبارکہ اس اہم اصول کی بھی صریح دلیل ہے کہ شریعت نے ہر اس سبب اور ذریعے کو قطعی طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جو باہمی بغض و عناد کی طرف لے جانے والا ہو یا بخیلی، حسد اور کینے وغیرہ تک پہنچا دینے والا ہو۔ الغرض! شریعت مطہرہ نے ہر وہ دروازہ مسدود کر دیا ہے جو مذکورہ یا ان جیسی دیگر اشیاء کی طرف کھلتا ہو۔ (۵) ’‘’برتن انڈیل دے‘‘ یعنی اس کو نکاح کے فوائد سے محروم کر دے۔ باقی دیکھئے روایت: ۴۴۹۶۔