سنن النسائي - حدیث 45

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ الِاسْتِنْجَاءُ بِالْمَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا النَّضْرُ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ أَحْمِلُ أَنَا وَغُلَامٌ مَعِي نَحْوِي إِدَاوَةً مِنْ مَاءٍ فَيَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 45

کتاب: امور فطرت کا بیان پانی سے استنجا کرنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تو میں اور میرے ساتھ مجھ جیسا کوئی اور لڑکا پانی کا برتن اٹھاتا، آپ اس پانی سے استنجا کرتے۔
تشریح : (۱) باب کا مقصد یہ ہے کہ ڈھیلے استعمال کرنا ضروری نہیں، بلکہ براہ راست پانی سے استنجا کیا جا سکتا ہے اور یہی افضل ہے۔ حدیث میں آیت (فیہ رجال یحبون ان یتطھروا) ’’اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ کی صحیح شانِ نزول یہی بیان ہوئی ہے کہ اہل قباء صرف پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے اور آیت میں اس طہارت کی بنا پر ان کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ (سنن أبی داود، الطھارۃ، حدیث: ۴۴) جب کہ بعض حضرات اس نظریے کے حامل ہیں کہ یہ ایک مشروب ہے اور کھانے پینے میں اس کا استعمال ہوتا ہے، نیز ڈھیلے استعمال کیے بغیر براہ راست پانی استعمال کرنے سے پانی بھی گندہ ہو جائے گا اور ہاتھ بھی آلودہ ہوں گے، ان کا خیال ہے کہ اگر ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی استعمال کیا جائے تو یہ تمام قباحتیں ختم ہو جائیں گی۔ (۲) اہل قباء کی تعریف میں جو آیت نازل ہوئی، اس کی وجہ ان کا پتھروں اور پھر پانی سے استنجا کرنا نہ تھی کیونکہ اس مفہوم کی روایت محققین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھیے: (مجمع الزوائد: ۲۹۱/۱، حدیث: ۱۰۵۳) اس لیے مستحب صرف پانی سے استنجا کرنا ہی ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آدمی اپنے ماتحت آزاد لوگوں سے خدمت لے سکتا ہے، نیز نیک لوگوں کی خدمت کرنا درست ہے۔ (۱) باب کا مقصد یہ ہے کہ ڈھیلے استعمال کرنا ضروری نہیں، بلکہ براہ راست پانی سے استنجا کیا جا سکتا ہے اور یہی افضل ہے۔ حدیث میں آیت (فیہ رجال یحبون ان یتطھروا) ’’اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ کی صحیح شانِ نزول یہی بیان ہوئی ہے کہ اہل قباء صرف پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے اور آیت میں اس طہارت کی بنا پر ان کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ (سنن أبی داود، الطھارۃ، حدیث: ۴۴) جب کہ بعض حضرات اس نظریے کے حامل ہیں کہ یہ ایک مشروب ہے اور کھانے پینے میں اس کا استعمال ہوتا ہے، نیز ڈھیلے استعمال کیے بغیر براہ راست پانی استعمال کرنے سے پانی بھی گندہ ہو جائے گا اور ہاتھ بھی آلودہ ہوں گے، ان کا خیال ہے کہ اگر ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی استعمال کیا جائے تو یہ تمام قباحتیں ختم ہو جائیں گی۔ (۲) اہل قباء کی تعریف میں جو آیت نازل ہوئی، اس کی وجہ ان کا پتھروں اور پھر پانی سے استنجا کرنا نہ تھی کیونکہ اس مفہوم کی روایت محققین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھیے: (مجمع الزوائد: ۲۹۱/۱، حدیث: ۱۰۵۳) اس لیے مستحب صرف پانی سے استنجا کرنا ہی ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آدمی اپنے ماتحت آزاد لوگوں سے خدمت لے سکتا ہے، نیز نیک لوگوں کی خدمت کرنا درست ہے۔