كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْمُهَاجِرِ لِلْأَعْرَابِيِّ صحيح أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ التَّلَقِّي وَأَنْ يَبِيعَ مُهَاجِرٌ لِلْأَعْرَابِيِّ وَعَنْ التَّصْرِيَةِ وَالنَّجْشِ وَأَنْ يَسْتَامَ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ وَأَنْ تَسْأَلَ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا
کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل
باب: شہری آدمی کا اعرابی کی چیز بیچنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی تاجر تجارتی قافلے کو منڈی سے باہر جا کر ملے، یا کوئی شہری کسی اعرابی (دیہاتی) کی کوئی چیز بیچے، یا کوئی اپنے جانور کا دودھ روکے، یا کوئی شخص ناجائز بھائو بڑھائے یا کوئی شخص کسی دوسرے بھائی کے بھائو پر بھائو کرے۔ یا کوئی عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے۔
تشریح :
(۱) ’’باہر جا کر ملے‘‘ یہ ایک طریقہ تھا تجارتی قافلے کو دھوکے میں رکھنے کا کہ منڈی میں داخل ہونے سے پہلے آگے جا کر تجارتی قافلے کے ساتھ سودے کر لیے جائیں تاکہ قافلے والوں کو منڈی کے بھائو کا علم نہ ہو سکے اور ان سے سستا مال خرید لیا جائے۔ دراصل اس میں دھوکا مقصود ہے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا بلکہ قافلے کو منڈی میں آنے دیا جائے، پھر ان سے سودے کیے جائیں۔ (۲) ’’کوئی شہری کسی اعرابی‘‘ حدیث میں لفظ مہاجر استعمال ہوا ہے کیونکہ اس وقت اکثر مہاجر ہی تجارت کرتے تھے، انصار تو زمیندار تھے۔ فرمان کا مقصد یہ ہے کہ شہری آدمی دیہاتی کا سامان نہ بیچے کیونکہ اس سے مہنگائی پیدا ہو گی۔ آخر شہری نے اپنا کمیشن بھی تو نکالنا ہے۔ اگر دیہاتی خود اپنا سامان بیٹے گا تو ظاہر ہے، وہ سستا بیچے گا کیونکہ اس نے اسی دن بیچ کر گھر واپس جانا ہوتا ہے جبکہ شہری اسے کہتا ہے کہ سامان میرے پاس رکھ چھوڑو، جب بھائو تیز ہو گا تو میں بیچ دوں گا۔ اس طریقے سے مہنگائی بڑھتی ہے، اس لیے منع فرمایا۔ ہاں، اگر شہری دیہاتی کے لیے کوئی چیز خریدے تو اجازت ہے کیونکہ اس سے مہنگائی نہیں ہو گی بلکہ وہ سستی چیز خریدے گا تاکہ کچھ اپنے لیے بھی بچا سکے۔ (۳) ’’بھائو بڑھائے‘‘ کسی آدمی کی نیت چیز خردینے کی نہیں لیکن وہ جان بوج کر ایک چیز کا بھائو زیادہ لگاتا ہے تاکہ اصل خریدار کو دھوکا دیا جا سکے اور وہ مہنگی خریدے۔ عام طور پر ایسے لوگ دکاندار کے ایجنٹ ہوتے ہیں جو کمیشن لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی دھوکا ہے، اس لیے منع کیا گیا ہے۔ (۴) ’’طلاق کا مطالبہ کرے‘‘ کوئی عورت نکاح کے موقع پر یا بعد میں یہ شرط لگائے کہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے۔ یا پہلی بیوی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں بھی خود غرضی اور حسد کارفرما ہے۔ ہر عورت کا اپنا اپنا نصیب ہے جس پر اسے قناعت کرنی چاہیے۔
(۱) ’’باہر جا کر ملے‘‘ یہ ایک طریقہ تھا تجارتی قافلے کو دھوکے میں رکھنے کا کہ منڈی میں داخل ہونے سے پہلے آگے جا کر تجارتی قافلے کے ساتھ سودے کر لیے جائیں تاکہ قافلے والوں کو منڈی کے بھائو کا علم نہ ہو سکے اور ان سے سستا مال خرید لیا جائے۔ دراصل اس میں دھوکا مقصود ہے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا بلکہ قافلے کو منڈی میں آنے دیا جائے، پھر ان سے سودے کیے جائیں۔ (۲) ’’کوئی شہری کسی اعرابی‘‘ حدیث میں لفظ مہاجر استعمال ہوا ہے کیونکہ اس وقت اکثر مہاجر ہی تجارت کرتے تھے، انصار تو زمیندار تھے۔ فرمان کا مقصد یہ ہے کہ شہری آدمی دیہاتی کا سامان نہ بیچے کیونکہ اس سے مہنگائی پیدا ہو گی۔ آخر شہری نے اپنا کمیشن بھی تو نکالنا ہے۔ اگر دیہاتی خود اپنا سامان بیٹے گا تو ظاہر ہے، وہ سستا بیچے گا کیونکہ اس نے اسی دن بیچ کر گھر واپس جانا ہوتا ہے جبکہ شہری اسے کہتا ہے کہ سامان میرے پاس رکھ چھوڑو، جب بھائو تیز ہو گا تو میں بیچ دوں گا۔ اس طریقے سے مہنگائی بڑھتی ہے، اس لیے منع فرمایا۔ ہاں، اگر شہری دیہاتی کے لیے کوئی چیز خریدے تو اجازت ہے کیونکہ اس سے مہنگائی نہیں ہو گی بلکہ وہ سستی چیز خریدے گا تاکہ کچھ اپنے لیے بھی بچا سکے۔ (۳) ’’بھائو بڑھائے‘‘ کسی آدمی کی نیت چیز خردینے کی نہیں لیکن وہ جان بوج کر ایک چیز کا بھائو زیادہ لگاتا ہے تاکہ اصل خریدار کو دھوکا دیا جا سکے اور وہ مہنگی خریدے۔ عام طور پر ایسے لوگ دکاندار کے ایجنٹ ہوتے ہیں جو کمیشن لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی دھوکا ہے، اس لیے منع کیا گیا ہے۔ (۴) ’’طلاق کا مطالبہ کرے‘‘ کوئی عورت نکاح کے موقع پر یا بعد میں یہ شرط لگائے کہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے۔ یا پہلی بیوی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں بھی خود غرضی اور حسد کارفرما ہے۔ ہر عورت کا اپنا اپنا نصیب ہے جس پر اسے قناعت کرنی چاہیے۔