سنن النسائي - حدیث 4494

كِتَابُ الْبُيُوعِ النَّهْيُ عَنِ الْمُصَرَّاةِ: وَهُوَ أَنْ يَرْبِطَ أَخْلَافَ النَّاقَةِ، أَوِ الشَّاةِ، وَتُتْرَكَ مِنَ الْحَلْبِ يَوْمَيْنِ، وَالثَّلَاثَةَ حَتَّى يَجْتَمِعَ لَهَا لَبَنٌ فَيَزِيدَ مُشْتَرِيهَا فِي قِيمَتِهَا لِمَا يَرَى مِنْ كَثْرَةِ لَبَنِهَا صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ابْتَاعَ مُحَفَّلَةً أَوْ مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِنْ شَاءَ أَنْ يُمْسِكَهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَرُدَّهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ لَا سَمْرَاءَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4494

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: تصریہ منع ہے، وہ یہ ہے کہ اونٹنی یا بکری کے تھن باندھ دئیے جائیں اور دو تین دن دودھ دوہنا چھوڑ دیا جائے تاکہ دودھ جمع ہو جائے اورخریدنے والا دودھ زیادہ سمجھ کر جانور کی زیادہ قیمت لگائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھنوں میں جمع کیا گیا تھا، اسے تین دن تک اختیار رہتا ہے، چاہے تو رکھ لے، چاہے واپس کر دے اور ساتھ کھجوروں کا ایک صاع دے دے۔ گندم کا نہیں۔‘‘
تشریح : (۱) ’’ابو القاسم‘‘ یہ رسول اللہ ﷺ کی کنیت تھی، یا تو آپ کے بڑے بیٹے قاسم کی نسبت سے یا اس لیے کہ آپ ﷺ اللہ کے حکم سے علم اور مال تقسیم فرماتے تھے۔ تقسیم کرنے والے کو بھی قاسم کہا جاتا ہے۔ عربوں میں کنیت کا عام رواج تھا۔ جب کسی کا احترام مقصود ہوتا تھا تو اسے کنیت سے پکارا جاتا تھا۔ (۲) ’’تین دن تک‘‘ کیونکہ اتنے دنوں میں اصل دودھ کا پتا چل جاتا ہے اور دھوکا واضح ہو جاتا ہے۔ (۳) ’’گندم کا نہیں‘‘ کیونکہ اس وقت عرب میں گندم بہت مہنگی تھی۔ خال خال کسی کے پاس تھوڑی بہت ہوتی تھی جیسے آج کل ہمارے ہاں کھجوریں ہیں، لہٰذا گندم کی نفی اس علاقے کے لحاظ سے ہے نہ کہ ہمارے علاقے کے لحاظ سے جہاں کی عام خوراک گندم ہے بلکہ یہاں گندم دی جائے گی۔ و اللہ اعلم۔ (۱) ’’ابو القاسم‘‘ یہ رسول اللہ ﷺ کی کنیت تھی، یا تو آپ کے بڑے بیٹے قاسم کی نسبت سے یا اس لیے کہ آپ ﷺ اللہ کے حکم سے علم اور مال تقسیم فرماتے تھے۔ تقسیم کرنے والے کو بھی قاسم کہا جاتا ہے۔ عربوں میں کنیت کا عام رواج تھا۔ جب کسی کا احترام مقصود ہوتا تھا تو اسے کنیت سے پکارا جاتا تھا۔ (۲) ’’تین دن تک‘‘ کیونکہ اتنے دنوں میں اصل دودھ کا پتا چل جاتا ہے اور دھوکا واضح ہو جاتا ہے۔ (۳) ’’گندم کا نہیں‘‘ کیونکہ اس وقت عرب میں گندم بہت مہنگی تھی۔ خال خال کسی کے پاس تھوڑی بہت ہوتی تھی جیسے آج کل ہمارے ہاں کھجوریں ہیں، لہٰذا گندم کی نفی اس علاقے کے لحاظ سے ہے نہ کہ ہمارے علاقے کے لحاظ سے جہاں کی عام خوراک گندم ہے بلکہ یہاں گندم دی جائے گی۔ و اللہ اعلم۔