سنن النسائي - حدیث 4490

كِتَابُ الْبُيُوعِ الْخَدِيعَةُ فِي الْبَيْعِ صحيح أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ كَانَ يُبَايِعُ وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ احْجُرْ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنْ الْبَيْعِ قَالَ إِذَا بِعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4490

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: سودے میں دھوکا لگتا ہو تو؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک آدمی کی سوجھ بوجھ میں کچھ کمی تھی۔ وہ سودے کیا کرتا تھا (اور نقصان اٹھاتا تھا) اس کے گھر والوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کی: اے اللہ کے نبی! اس پر سودے کرنے کی پابندی لگا دیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس شخص کو بلایا اور اسے سودے کرنے سے منع فرمایا۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں سودا کرنے سے نہیں رک سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تو سودا کرے تو کہہ دیا کر، دھوکا نہیں ہونا چاہیے۔ (ورنہ سودا واپس ہو جائے گا)۔‘‘
تشریح : (۱) تجارت اور سوداگری میں دھوکا دینا، شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ایسا تاجر جو لوگوں کو خرید و فروخت میں دھوکا دیتا ہے، وہ ان کا مال باطل طریقے سے کھاتا ہے اور یہ حرام ہے۔ (۲) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک فریق کی طرف سے بھی کوئی ایسی شرط ہو جوو شرعاً جائز ہو تو وہ معتبر ہو گی۔ نہ صرف شرط معتبر ہو گی بلکہ اس کی وجہ سے سودا فسخ اور ختم کرنے کا اختایر بھی اسے حاصل ہو گا۔ (۳) یہ حدیث اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خبر واحد قطعی طور پر حجت ہے۔ (۴) معقول عذر کی وجہ سے بالغ شخص پر تجارت نہ کرنے کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ (۵) ’’دھوکا نہیں ہونا چاہیے‘‘ گویا کہا جا رہا ہے: اگر دھوکا ہو گا تو سودا واپس ہو گا۔ اگر صراحتاً واپسی کی شرط لگانے سے واپسی ہو سکتی ہے تو کنایۃً واپسی کی شرط سے واپسی میں کیا حرج ہے؟ (۱) تجارت اور سوداگری میں دھوکا دینا، شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ایسا تاجر جو لوگوں کو خرید و فروخت میں دھوکا دیتا ہے، وہ ان کا مال باطل طریقے سے کھاتا ہے اور یہ حرام ہے۔ (۲) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک فریق کی طرف سے بھی کوئی ایسی شرط ہو جوو شرعاً جائز ہو تو وہ معتبر ہو گی۔ نہ صرف شرط معتبر ہو گی بلکہ اس کی وجہ سے سودا فسخ اور ختم کرنے کا اختایر بھی اسے حاصل ہو گا۔ (۳) یہ حدیث اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خبر واحد قطعی طور پر حجت ہے۔ (۴) معقول عذر کی وجہ سے بالغ شخص پر تجارت نہ کرنے کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ (۵) ’’دھوکا نہیں ہونا چاہیے‘‘ گویا کہا جا رہا ہے: اگر دھوکا ہو گا تو سودا واپس ہو گا۔ اگر صراحتاً واپسی کی شرط لگانے سے واپسی ہو سکتی ہے تو کنایۃً واپسی کی شرط سے واپسی میں کیا حرج ہے؟