سنن النسائي - حدیث 449

كِتَابُ الصَّلَاةِ فَرْضُ الصَّلَاةِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلَافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ أَقْبَلَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَلْآنَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَشَقَّ مِنْ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ فَغَسَلَ الْقَلْبَ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ ثُمَّ انْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ مَرْحَبًا بِكَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ فَمِثْلُ ذَلِكَ فَأَتَيْتُ عَلَى يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمَا فَقَالَا مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ فَمِثْلُ ذَلِكَ فَأَتَيْتُ عَلَى يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَمِثْلُ ذَلِكَ فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَمِثْلُ ذَلِكَ فَأَتَيْتُ عَلَى هَارُونَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَمِثْلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى قِيلَ مَا يُبْكِيكَ قَالَ يَا رَبِّ هَذَا الْغُلَامُ الَّذِي بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ وَأَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ فَمِثْلُ ذَلِكَ فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ فَقَالَ هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ فَإِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرٍ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ فَقَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالْبُطَاءُ وَالنَّيْل ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ مَا صَنَعْتَ قُلْتُ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ إِنِّي عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَنْ يُطِيقُوا ذَلِكَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنِّي فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ مَا صَنَعْتَ قُلْتُ جَعَلَهَا أَرْبَعِينَ فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَجَعَلَهَا ثَلَاثِينَ فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَجَعَلَهَا عِشْرِينَ ثُمَّ عَشْرَةً ثُمَّ خَمْسَةً فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى فَقُلْتُ إِنِّي أَسْتَحِي مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْهِ فَنُودِيَ أَنْ قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي وَأَجْزِي بِالْحَسَنَةِ عَشْرَ أَمْثَالِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 449

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل نماز کی فرضیت کا بیان اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس(کے متن)میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دفعہ میں بیت اللہ کے پاس جاگنے اور سونے کی درمیانی کیفیت میں تھا کہ تین آدمی آئے۔ ایک آدمی ان میں سے دوکے درمیان تھا۔ میرے پاس سونے کا تھال لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس درمیان والے آدمی نے (میرا بدن) سینے سے لے کر پیٹ کے نیچے تک چاک کردیا، پھر اس نے میرے دل کو زمزم کے پانی سے دھویا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹااور گدھے سے بڑا جانور لایا گیا، پھر میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ چلا، چنانچہ ہم پہلے (قریبی) آسمان تک آئے۔ (دروازہ کھٹکھٹانے پر) پوچھا گیا: کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ (جبریل علیہ السلام نے) فرمایا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ کہا گیا: کیا انھیںبلایا گیا ہے؟ (سوال و جواب کے بعد دروازہ کھولا گیا اور کہا گیا:) آپ کو خوش آمدید ہو۔ آپ بہت ہی خوب آئے۔ (اس آسمان پر) میں آدم علیہ السلام کے ہاں پہنچا اور میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے فرمایا: خوش آمدید ہو تمھیں اے میرے بیٹے اور نبی! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: جبریل۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہاں بھی پہلے آسمان کی طرح ہوا، چنانچہ میں یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے پاس آیا اور میں نے انھیں سلام کیا، انھوں نے کہا: خوش آمدید ہو آپ کو اے ہمارے بھائی اور نبی! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے۔ پوچھا گیا کون ہے؟ کہا: جبریل ۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) وہاں بھی اسی طرح ہوا، چنانچہ میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ وہ کہنے لگے: خوش آمدید ہو آپ کو اے بھائی اور نبی! پھر ہم چوتھے آسمان تک پہنچے۔ وہاں بھی وہی کچھ ہوا۔ میں ادریس علیہ السلام کو ملا۔ میں نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے کہا: خوش آمدید ہو آپ کو اے بھائی اور نبی! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی وہی کچھ ہوا۔ میں ہارون علیہ السلام کو ملا۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے کہا: خوش آمدید ہو آپ کو اے بھائی اور نبی! پھر ہم چھٹے آسمان پر پہنچے۔ وہاں بھی یہی کچھ ہوا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور میں نے ان کو سلام کیا۔ انھوں نے کہا: خوش آمدید ہو آپ کو اے بھائی اور نبی! جب میں ان سے آگے گزرا تو وہ رونے لگے۔ پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ انھوں نے کہا: یارب! یہ نوجوان جس کو تونے میرے بعد نبی بنایا، اس کی امت سے میری امت کے مقابلے میں زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہ افضل بھی ہوں گے۔ پھر ہم ساتویں آسمان پر گئے۔ وہاں بھی یہی کچھ ہوا۔ میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس گیا۔ ان کو سلام کیا۔ انھوں نے فرمایا: خوش آمدید ہو آپ کو اے بیٹے اور نبی! پھر مجھے بیت معمور دکھلایا گیا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ بیت معمور ہے۔ اس میں ہر روز سترہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جب وہ اس سے ایک دفعہ نکل جاتے ہیں تو عمربھر دوبارہ نہیں آسکتے۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کی طرف بلند کیا (چڑھایا) گیا۔ اس کے بیر علاقۂ ہجر کے مٹکوں کے برابر اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جتنے بڑے تھے۔ اس کی جڑ میں چار نہریں تھیں۔ دوپوشیدہ، دوظاہر۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ پوشیدہ نہریں تو جنت میں ہیں اور ظاہر نیل و فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس (۵۰) نمازیں فرض کی گئیں۔ میں واپس موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: کیا کرآئے؟ میں نے کہا: مجھ پر پچاس (۵۰) نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ مجھے بنی اسرائیل کا زبردست تجربہ ہے۔ آپ کی امت ہرگز اس کی طاقت نہ رکھے گی، لہٰذا واپس اپنے رب تعالیٰ کے پاس جائیں اور ان سے تخفیف کا سوال کریں۔ میں دوبارہ اپنے رب تعالیٰ کے پاس گیا اور تخفیف کا سوال کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو چالیس (۴۰) بنادیا۔ میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: کیا کرآئے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے چالیس(۴۰) کردی ہیں۔ لیکن انھوں نے پھر پہلی بات دہرائی۔ میں پھر اپنے رب تعالیٰ کے پاس گیا تو اللہ تعالیٰ نے تیس(۳۰) کردیں۔ میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور انھیں بتایا تو انھوں نے پھر پہلی بات ہی کی۔ میں پھر اپنے رب تعالیٰ کے پاس گیا تو اللہ تعالیٰ نے پہلے بیس(۲۰)، پھر دس(۱۰) اور پھر پانچ(۵) کردیں۔ میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر پہلی بات دہرائی۔ میں نے کہا: اب تو مجھے اپنے رب تعالیٰ کی طرف جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ چنانچہ اتنے میں اعلان ہوا: میں نے اپنا فریضہ جاری (نافذ) کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کی اور میں ہر نیکی کا بدلہ دس گنا دوں گا۔‘‘
تشریح : (۱) [عند البیت] سے بیت اللہ مراد ہے۔ آپ بیت اللہ کے ایک حصے ’’حجر‘‘ میں لیٹے ہوئے تھے۔ اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ام ہانی کے گھر کا ذکرہے۔ (تفسیر طبری: ۹؍۵) ممکن ہے وہیں سوئےہوں، پھر حطیم میں آگئے ہوں۔ (۲)’’جاگنے سونے کے درمیان‘‘ آپ کی عمومی نیند ایسی ہی تھی اور یہاں اس کا مطلب گہری نیند کی نفی ہے، یعنی آپ نیند کے ابتدائی مرحلے میں تھے، اسے جاگنے اور سونے کے درمیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (۳) ’’تین آدمی آئے‘‘ ظاہر صورت کے لحاظ سے آدمی کہا ورنہ وہ فرشتے تھے۔ دو کا نام بعض روایات میں ہے: جبریل اور میکائیل علیہما السلام۔ (۴)آپ کے سینۂ اطہر کا چیرا جانا، پھر زمزم سے دھویا جانا اور ایمان وحکمت سے بھرا جانا، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باہمی راز ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی، ممکن ہے یہ آسمانوں پر جانے کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ ہو۔ (۵) استدلال کیا گیا ہے کہ زم زم کا پانی جنت کے پانی جنت کے پانی سے افضل ہے۔ تبھی آپ کے قلب اقدس کو اس سے دھویا گیا۔ (۶)’’جانور‘‘ کا نام روایات میں ’’براق‘‘ آیا ہے۔ (صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث:۳۸۸۷، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۶۴) مگر یہ بھی وصفی نام ہے جو برق سے لیا گیا ہے۔ (۷)’’میں جبریل کے ساتھ چلا۔‘‘ آنے والے تین ہمراہیوں میں سے ایک جبریل علیہ السلام ہی تھے۔ اس کے بعد باقی دو کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہے وہ خالی تھال لے کر اور آپ کے دیدار سے مشرف ہوکر واپس چلے گئے۔ (۸)’’ہم آسمان دنیا کے پاس آئے۔‘‘ روایت مختصر ہے۔ بعض روایات میں مدینہ منورہ، طورسینا، بیت اللحم اور بیت المقدس جانے کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیے، حدیث:۴۵۱) لیکن اس اضافے کے ساتھ یہ روایت منکر ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: (الاسراء والمعراج للالبانی، ص:۴۴) (۹)ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات، ممکن ہے ان کو آپ کے استقبال و ملاقات کےلیے خصوصی طور پر لایا گیا ہو۔ اوریہی انسب ہے۔ (۱۰) حضرت آدم اور ابراہیم علیہما السلام کا آپ کو بیٹا کہنا اس لیے ہے کہ وہ آپ کے اجداد میں شامل ہیںَ۔ نسب میں ان کا ذکر ہوتا ہے، جب کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے نسب میں نہیں آتے، لہٰذا وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے رتبے میں ہیں، تبھی انھوں نے آپ کو بھائی کہا۔ (۱۱)موسیٰ علیہ السلام کا رونا آپ یا آپ کی امت پر حسد کے طور پر نہیں تھا۔ حاشاوکلا۔ انبیاء علیہم السلام اس بیماری سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ یہ اپنی امت پر افسوس کی بنا پر تھا کہ میں نے اتنی محنت کی، اتنا عرصہ گزارا مگر میں یہ رتبہ حاصل نہ کرسکا کیونکہ جس نبی کے جتنے زیادہ پیروکار ہوں گے اسے اتنا ہی اجروثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر حسد ہوتا تو واپسی کے وقت امت مسلمہ کے خیرخواہی کیوں کرتے اورپچاس(۵۰) سے پانچ(۵) نمازیں رہ جانے کا سبب کیوں بنتے؟ شاید اسی شبہے کے ازالے کے لیے یہ باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہلوائی گئیں، ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے۔ واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات پہلے ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام تو چھٹے آسمان پر تھے۔ بعض محدثین نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ واپسی کے وقت انبیاء علیہم السلام کی ترتیب بدل گئی ہوگی۔ (۱۲)’’بیت المعمور‘‘ بیت اللہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر ہے جس میں فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ آتا ہے اس کی دوبارہ باری نہیں آتی۔ اور داخل بھی روزانہ سترہزار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فرشتے دیگر تمام مخلوقات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ (صحیح البخاری، بدء الخلق، حدیث:۳۲۰۷) (۱۳) سدرۃ المنتہیٰ بیری کا درخت ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ صوفیاء نے اسے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا تمثل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ’’سدرہ‘‘ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ ’’المنتہیٰ‘‘ کے معنی ہیں: آخری، یعنی یہ مخلوقات کی انتہا ہے، یہاں عالم خلق ختم ہوجاتا ہے۔ بقول صوفیاء اس سے اوپر عالم امر ہے جہاں کسی مخلوق کی رسائی نہیں خواہ وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ۔ اس حدیث میں اسے ساتویں آسمان سے اوپر قرار دیا گیا ہے۔ آگے ایک حدیث میں اسے چھٹے آسمان پر بتلایا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ جڑ چھٹے آسمان پر ہوگی اور شاخیں ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ (۱۴)سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہروں (یادریاؤں) کا جو ذکر ہے ان میں سے دو پوشیدہ بتلایا گیا ہے، نیز یہ کہ وہ جنت میں ہیں۔ اوردو کو ظاہر کیا گیا ہے جو نیل اور فرات ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں جنت کی دو باطنی نہروں کے نام ’’سیحان‘‘ اور ’’جیجان‘‘ بتلائے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحنۃ وتیمھا، حدیث: ۲۸۳۹) علاوہ ازیں ان چاروں نہروں کو جنت کی نہریں قرار دیا گیا ہے۔ دریائے نیل و فرات تو مشہور اور ان کے علاقے بھی معلوم ہیں اور سیحان و جیجان کی بابت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں نہریں بہت بڑی ہیں اور ترکی میں ہیں۔ جیجان کی گزرگاہ مصیصہ ہے سیحان کی گزرگاہ اذنہ ہے۔ اور یہ دونوں نہریں بحرروم میں گرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دو نہریں اور ہیں جن کے نام ان سے ملتے جلتے ہیں، یعنی جوجون اور سیحون۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ حدیث میں مذکور ’’جیجان اور سیحان‘‘ سے یہی مراد ہیں۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تردید کی ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی۔ اورمولانا موصوف نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دریائے جیجون وہی ہے جسے آج کل دریائے آمو کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان حد ہے۔ یہ بلخ، ترمذ اور آمل ودرغان سے گزرتا ہوا بحیرۂ خوارزم میں جاگرتا ہے۔ اور سیحون، جیجون کے ماوراء ہے جو خجندہ اور خوقند کے قریب اور تاشقند سے پہلے گزرتا ہے۔ اسےآج کل سیردریا کہا جاتا ہے۔ ان چاروں دریائوں کے جنت سے ہونے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کی اصل جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان نہروں کے جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان نہروں کے جنت سے ہونے سے مراد شاید یہ ہے کہ ان کی اصل جنت سے ہے، جیسے انسان کی اصل جنت سے ہے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں ہے جو ان نہروں کی بابت مشہورومعلوم ہے کہ یہ نہریں زمین کے معروف سرچشموں سے پھوٹتی ہیں۔ اور اگر اس کے یہ یا اس سے ملتے جلتے معنی نہیں ہیں تو یہ حدیث امورغیب سے متعلق ہے جن پر ایمان رکھنا اور جو خبر دی گئی ہے، اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔۔۔‘‘ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ۱؍۱۷۷، ۱۷۸) بعض لوگوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ نہریں بہتی ہیں، ان میں اسلام کا پھیلاؤ اور غلبہ ہوگا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان نہروں کے پانی سے پیدا ہونے والی خوراک جو لوگ استعمال کریں گے وہ جنتی ہوں گے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں تاویلوں کے مقابلے میں اس کا پہلا ظاہری معنی ہی زیادہ صحیح ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی، الجنۃحدیث: ۲۸۳۹، ومنۃ المنعم:۴؍۳۲۲، مطبوعۃ دارالسلام، الریاض) (۱۵)واپسی کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اورنبی کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے واپسی پردیگر انبیاء سے ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یعنی جہاں سے ان کو لایا گیا تھا، وہیں بھیج دیا گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کوئی خصوصی بات نہ ہوئی ہو، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ (۱۶)حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس اللہ عزوجل کے پاس جانا شاید اس شبہے کو دور کرنے کے لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی امت پر حسد ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے الزام سے بچانے کے لیے دنیا میں پتھر والا واقعہ پیش آیا تھا۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث:۲۷۸، وصحیح مسلم، الحیض، حدیث:۳۳۹) (۱۷) نمازوں کی تخفیف بعض روایات کے مطابق پانچ(۵) پانچ(۵) سے ہوئی۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۶۲) گویا اس روایت میں اختصار ہے۔ آخر میں پانچ (۵) کا رہ جانا بھی اس کا مؤید ہے۔ (۱۷) [امضیت فریضتی] ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل فریضہ پانچ(۵) نمازیں ہی تھیں۔ پچاس نمازوں کا مقرر ہونا گویا ان کے ثواب کے اظہار کے لیے تھا، باربار آنے جانے سے یہ عقدہ حل ہوگیا۔ (۱) [عند البیت] سے بیت اللہ مراد ہے۔ آپ بیت اللہ کے ایک حصے ’’حجر‘‘ میں لیٹے ہوئے تھے۔ اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ام ہانی کے گھر کا ذکرہے۔ (تفسیر طبری: ۹؍۵) ممکن ہے وہیں سوئےہوں، پھر حطیم میں آگئے ہوں۔ (۲)’’جاگنے سونے کے درمیان‘‘ آپ کی عمومی نیند ایسی ہی تھی اور یہاں اس کا مطلب گہری نیند کی نفی ہے، یعنی آپ نیند کے ابتدائی مرحلے میں تھے، اسے جاگنے اور سونے کے درمیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (۳) ’’تین آدمی آئے‘‘ ظاہر صورت کے لحاظ سے آدمی کہا ورنہ وہ فرشتے تھے۔ دو کا نام بعض روایات میں ہے: جبریل اور میکائیل علیہما السلام۔ (۴)آپ کے سینۂ اطہر کا چیرا جانا، پھر زمزم سے دھویا جانا اور ایمان وحکمت سے بھرا جانا، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باہمی راز ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی، ممکن ہے یہ آسمانوں پر جانے کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ ہو۔ (۵) استدلال کیا گیا ہے کہ زم زم کا پانی جنت کے پانی جنت کے پانی سے افضل ہے۔ تبھی آپ کے قلب اقدس کو اس سے دھویا گیا۔ (۶)’’جانور‘‘ کا نام روایات میں ’’براق‘‘ آیا ہے۔ (صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث:۳۸۸۷، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۶۴) مگر یہ بھی وصفی نام ہے جو برق سے لیا گیا ہے۔ (۷)’’میں جبریل کے ساتھ چلا۔‘‘ آنے والے تین ہمراہیوں میں سے ایک جبریل علیہ السلام ہی تھے۔ اس کے بعد باقی دو کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہے وہ خالی تھال لے کر اور آپ کے دیدار سے مشرف ہوکر واپس چلے گئے۔ (۸)’’ہم آسمان دنیا کے پاس آئے۔‘‘ روایت مختصر ہے۔ بعض روایات میں مدینہ منورہ، طورسینا، بیت اللحم اور بیت المقدس جانے کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیے، حدیث:۴۵۱) لیکن اس اضافے کے ساتھ یہ روایت منکر ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: (الاسراء والمعراج للالبانی، ص:۴۴) (۹)ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات، ممکن ہے ان کو آپ کے استقبال و ملاقات کےلیے خصوصی طور پر لایا گیا ہو۔ اوریہی انسب ہے۔ (۱۰) حضرت آدم اور ابراہیم علیہما السلام کا آپ کو بیٹا کہنا اس لیے ہے کہ وہ آپ کے اجداد میں شامل ہیںَ۔ نسب میں ان کا ذکر ہوتا ہے، جب کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے نسب میں نہیں آتے، لہٰذا وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے رتبے میں ہیں، تبھی انھوں نے آپ کو بھائی کہا۔ (۱۱)موسیٰ علیہ السلام کا رونا آپ یا آپ کی امت پر حسد کے طور پر نہیں تھا۔ حاشاوکلا۔ انبیاء علیہم السلام اس بیماری سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ یہ اپنی امت پر افسوس کی بنا پر تھا کہ میں نے اتنی محنت کی، اتنا عرصہ گزارا مگر میں یہ رتبہ حاصل نہ کرسکا کیونکہ جس نبی کے جتنے زیادہ پیروکار ہوں گے اسے اتنا ہی اجروثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر حسد ہوتا تو واپسی کے وقت امت مسلمہ کے خیرخواہی کیوں کرتے اورپچاس(۵۰) سے پانچ(۵) نمازیں رہ جانے کا سبب کیوں بنتے؟ شاید اسی شبہے کے ازالے کے لیے یہ باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہلوائی گئیں، ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے۔ واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات پہلے ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام تو چھٹے آسمان پر تھے۔ بعض محدثین نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ واپسی کے وقت انبیاء علیہم السلام کی ترتیب بدل گئی ہوگی۔ (۱۲)’’بیت المعمور‘‘ بیت اللہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر ہے جس میں فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ آتا ہے اس کی دوبارہ باری نہیں آتی۔ اور داخل بھی روزانہ سترہزار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فرشتے دیگر تمام مخلوقات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ (صحیح البخاری، بدء الخلق، حدیث:۳۲۰۷) (۱۳) سدرۃ المنتہیٰ بیری کا درخت ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ صوفیاء نے اسے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا تمثل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ’’سدرہ‘‘ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ ’’المنتہیٰ‘‘ کے معنی ہیں: آخری، یعنی یہ مخلوقات کی انتہا ہے، یہاں عالم خلق ختم ہوجاتا ہے۔ بقول صوفیاء اس سے اوپر عالم امر ہے جہاں کسی مخلوق کی رسائی نہیں خواہ وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ۔ اس حدیث میں اسے ساتویں آسمان سے اوپر قرار دیا گیا ہے۔ آگے ایک حدیث میں اسے چھٹے آسمان پر بتلایا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ جڑ چھٹے آسمان پر ہوگی اور شاخیں ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ (۱۴)سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہروں (یادریاؤں) کا جو ذکر ہے ان میں سے دو پوشیدہ بتلایا گیا ہے، نیز یہ کہ وہ جنت میں ہیں۔ اوردو کو ظاہر کیا گیا ہے جو نیل اور فرات ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں جنت کی دو باطنی نہروں کے نام ’’سیحان‘‘ اور ’’جیجان‘‘ بتلائے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحنۃ وتیمھا، حدیث: ۲۸۳۹) علاوہ ازیں ان چاروں نہروں کو جنت کی نہریں قرار دیا گیا ہے۔ دریائے نیل و فرات تو مشہور اور ان کے علاقے بھی معلوم ہیں اور سیحان و جیجان کی بابت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں نہریں بہت بڑی ہیں اور ترکی میں ہیں۔ جیجان کی گزرگاہ مصیصہ ہے سیحان کی گزرگاہ اذنہ ہے۔ اور یہ دونوں نہریں بحرروم میں گرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دو نہریں اور ہیں جن کے نام ان سے ملتے جلتے ہیں، یعنی جوجون اور سیحون۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ حدیث میں مذکور ’’جیجان اور سیحان‘‘ سے یہی مراد ہیں۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تردید کی ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی۔ اورمولانا موصوف نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دریائے جیجون وہی ہے جسے آج کل دریائے آمو کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان حد ہے۔ یہ بلخ، ترمذ اور آمل ودرغان سے گزرتا ہوا بحیرۂ خوارزم میں جاگرتا ہے۔ اور سیحون، جیجون کے ماوراء ہے جو خجندہ اور خوقند کے قریب اور تاشقند سے پہلے گزرتا ہے۔ اسےآج کل سیردریا کہا جاتا ہے۔ ان چاروں دریائوں کے جنت سے ہونے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کی اصل جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان نہروں کے جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان نہروں کے جنت سے ہونے سے مراد شاید یہ ہے کہ ان کی اصل جنت سے ہے، جیسے انسان کی اصل جنت سے ہے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں ہے جو ان نہروں کی بابت مشہورومعلوم ہے کہ یہ نہریں زمین کے معروف سرچشموں سے پھوٹتی ہیں۔ اور اگر اس کے یہ یا اس سے ملتے جلتے معنی نہیں ہیں تو یہ حدیث امورغیب سے متعلق ہے جن پر ایمان رکھنا اور جو خبر دی گئی ہے، اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔۔۔‘‘ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ۱؍۱۷۷، ۱۷۸) بعض لوگوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ نہریں بہتی ہیں، ان میں اسلام کا پھیلاؤ اور غلبہ ہوگا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان نہروں کے پانی سے پیدا ہونے والی خوراک جو لوگ استعمال کریں گے وہ جنتی ہوں گے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں تاویلوں کے مقابلے میں اس کا پہلا ظاہری معنی ہی زیادہ صحیح ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی، الجنۃحدیث: ۲۸۳۹، ومنۃ المنعم:۴؍۳۲۲، مطبوعۃ دارالسلام، الریاض) (۱۵)واپسی کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اورنبی کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے واپسی پردیگر انبیاء سے ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یعنی جہاں سے ان کو لایا گیا تھا، وہیں بھیج دیا گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کوئی خصوصی بات نہ ہوئی ہو، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ (۱۶)حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس اللہ عزوجل کے پاس جانا شاید اس شبہے کو دور کرنے کے لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی امت پر حسد ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے الزام سے بچانے کے لیے دنیا میں پتھر والا واقعہ پیش آیا تھا۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث:۲۷۸، وصحیح مسلم، الحیض، حدیث:۳۳۹) (۱۷) نمازوں کی تخفیف بعض روایات کے مطابق پانچ(۵) پانچ(۵) سے ہوئی۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۶۲) گویا اس روایت میں اختصار ہے۔ آخر میں پانچ (۵) کا رہ جانا بھی اس کا مؤید ہے۔ (۱۷) [امضیت فریضتی] ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل فریضہ پانچ(۵) نمازیں ہی تھیں۔ پچاس نمازوں کا مقرر ہونا گویا ان کے ثواب کے اظہار کے لیے تھا، باربار آنے جانے سے یہ عقدہ حل ہوگیا۔