سنن النسائي - حدیث 4470

كِتَابُ الْبُيُوعِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى نَافِعٍ فِي لَفْظِ حَدِيثِهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُتَبَايِعَانِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ عَلَى صَاحِبِهِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4470

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: نافع کی حدیث کے الفاظ میں (راویوں کے) اختلاف کا بیان حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خرید و فروخت کرنے والے دو اشخاص میں سے ہر ایک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ جدا ہونے سے قبل سودا واپس کرے، البتہ بیع خیار میں ایسے نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث مبارکہ سے خرید و فروخت کرنے والوں کے اختیار کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ بائع اور مشتری، دونوں کو اس وقت تک سودا کرنے یا نہ کرنے کا حاصل ہے جب تک کہ وہ اس مجلس سے الگ نہ ہو جائیں۔ جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو اختیار ختم ہو جائے گا، تاہم اگر وہ کچھ وقت تک ایک دوسرے کو سوچنے سمجھنے اور سودا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیں تو پھر مقررہ وقت تک اختیار باقی رہے گا۔ وہ وقت گزر جانے کے بعد سودا پکا ہو جائے گا اور اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔ (۲) اس حدیث سے بیع خیار کا، یعنی ایک دوسرے کو یا کسی ایک کا دوسرے کو اختیار دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (۳) بیع خیار سے مراد وہ بیع ہے جس میں دونوں میں سے ہر ایک نے بیع کرتے وقت واپسی کا اختیار ختم کر دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اگر واپس کنا ہے تو ابھی کر لو ورنہ واپسی نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں مجلس بیع قائم رہنے کے باوجود اختیار نہیں رہے گا۔ بیع خیار کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں: وہ بیع جس میں زیادہ مدت (مثلاً: تین دن وغیرہ) تک واپسی کا اختیار رکھ لیا گیا ہو تو ایسی بیع میں مجلس برخاست ہونے کے باوجود مقررہ وقت تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ دونوں مفہوم صحیح ہیں۔ (۱) اس حدیث مبارکہ سے خرید و فروخت کرنے والوں کے اختیار کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ بائع اور مشتری، دونوں کو اس وقت تک سودا کرنے یا نہ کرنے کا حاصل ہے جب تک کہ وہ اس مجلس سے الگ نہ ہو جائیں۔ جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو اختیار ختم ہو جائے گا، تاہم اگر وہ کچھ وقت تک ایک دوسرے کو سوچنے سمجھنے اور سودا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیں تو پھر مقررہ وقت تک اختیار باقی رہے گا۔ وہ وقت گزر جانے کے بعد سودا پکا ہو جائے گا اور اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔ (۲) اس حدیث سے بیع خیار کا، یعنی ایک دوسرے کو یا کسی ایک کا دوسرے کو اختیار دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (۳) بیع خیار سے مراد وہ بیع ہے جس میں دونوں میں سے ہر ایک نے بیع کرتے وقت واپسی کا اختیار ختم کر دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اگر واپس کنا ہے تو ابھی کر لو ورنہ واپسی نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں مجلس بیع قائم رہنے کے باوجود اختیار نہیں رہے گا۔ بیع خیار کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں: وہ بیع جس میں زیادہ مدت (مثلاً: تین دن وغیرہ) تک واپسی کا اختیار رکھ لیا گیا ہو تو ایسی بیع میں مجلس برخاست ہونے کے باوجود مقررہ وقت تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ دونوں مفہوم صحیح ہیں۔