سنن النسائي - حدیث 4467

كِتَابُ الْبُيُوعِ الْحَلِفُ الْوَاجِبُ لِلْخَدِيعَةِ فِي الْبَيْعِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالطَّرِيقِ يَمْنَعُ ابْنَ السَّبِيلِ مِنْهُ وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لِدُنْيَا إِنْ أَعْطَاهُ مَا يُرِيدُ وَفَّى لَهُ وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ لَمْ يَفِ لَهُ وَرَجُلٌ سَاوَمَ رَجُلًا عَلَى سِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ لَهُ بِاللَّهِ لَقَدْ أُعْطِيَ بِهَا كَذَا وَكَذَا فَصَدَّقَهُ الْآخَرُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4467

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: سودے میں دھوکا دینے کے لیے قسم کھانا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں فرمائے گا، نہ ان کو دیکھے گا اور نہ ان کو پاک ہی کرے گا۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ آدمی جس کے ہاں گزرگاہ کے پاس (اس کی ضرورت سے) فالتو پانی ہے لیکن وہ مسافر کو پانی لینے سے روک دے۔ دوسرا وہ آدمی جو صرف دنیوی مفاد کی خاطر کسی امام سے بیعت کرتا ہے۔ اگر امام اس کو اس کی منشا کے مطابق دیتا رہے تو وہ بیعت قر قائم رہتا ہے اور اگر نہ دے تو توڑ دیتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی آدمی سے عصر کے بعد سامان کا بھائو کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس سامان کے بدلے اسے اس قدر رقم ملتی تھی (حالانکہ اسے اتنی رقم نہیں ملتی تھی) دوسرا اس کی تصدیق کر دیتا ہے (اور سامان خرید لیتا ہے)۔‘‘
تشریح : (۱) اس حدیث مبارکہ میں اس شخص کی بابت سخت ترین وعیدہ ہے جو محض ذاتی مفاد کی خاطر حاکم وقت کی مخالفت کرتا ہے، اس کے ساتھ کی ہوئی بیعت توڑتا اور اس کے خلاف خروج وغیرہ کرتا ہے۔ اس جرم کے مرتکب کے لیی اس قدر شدید وعید کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ امام وقت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا اتفاق پارا پارا ہو جائے گا اور امت میں شر، فساد اور ظلم پھیلے گا۔ یہ یاد رہے کہ وفائے عہد میں عزت و عفت، مال اور خون، سب چیزوں کی حفاظت شامل ہے۔ (۲) ہر وہ عمل جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اگر اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول نہ ہو بلکہ اس سے صرف دنیوی فائدے کا حصول مطلوب ہو، تو وہ انسان کے لیے وبال اور اس کی آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ (۳) ’’تین شخص‘‘ حدیث میں جن تین اشخاص کا ذکر ہے، حدیث نمبر: ۴۴۶۳ میں ان میں سے صری ایک شخص کا ذکر ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پانچ شخص بن گئے۔ گویا تین کا لفظ حصر کے لیے نہیں بلکہ یادداشت کے لیے ہے۔ ویسے بھی تین میں زائد کی نفی نہیں۔ احادیث میں کئی مقامات پر ایسے ہے۔ اسے اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو آپ کے ذہن میں تھے یا جن کو آپ نے موقع محل کے مناسب سمجھا، ذکر فرما دیا۔ اس سے باقی کی نفی نہیں ہو گی۔ (۴) ’دپانی سے روک دے‘‘ پانی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری چیز ہے۔ اس کے نہ ملنے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ نے مفت مہیا کیا ہے، لہٰذا زائد پانی روکنے کا کوئی جواز نہیں، البتہ اگر اپنی ضرورت سے زائد نہ ہو تو روکا جا سکتا ہے لیکن پینے سے نہیں روکا جا سکتا الا یہ کہ اپنے پینے کے لیے رکھا گیا ہو۔ (۵) ’’عصر کے بعد‘‘ ممکن ہے یہ قید اتفاقی ہو کیونکہ عصر کے بعد خرید و فروخت زیادہ ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے، یہ قید قصداً ذکر کی گئی ہو کیونکہ عصر دن کا آخر وقت ہے جو انسان کو موت اور قیامت کی یاد دلاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ توبہ و استغفار کا وقت ہے۔ ایسے وقت میں جھوٹی قسمیں کھانا انتہائی قبیح کام ہے۔ (۱) اس حدیث مبارکہ میں اس شخص کی بابت سخت ترین وعیدہ ہے جو محض ذاتی مفاد کی خاطر حاکم وقت کی مخالفت کرتا ہے، اس کے ساتھ کی ہوئی بیعت توڑتا اور اس کے خلاف خروج وغیرہ کرتا ہے۔ اس جرم کے مرتکب کے لیی اس قدر شدید وعید کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ امام وقت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا اتفاق پارا پارا ہو جائے گا اور امت میں شر، فساد اور ظلم پھیلے گا۔ یہ یاد رہے کہ وفائے عہد میں عزت و عفت، مال اور خون، سب چیزوں کی حفاظت شامل ہے۔ (۲) ہر وہ عمل جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اگر اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول نہ ہو بلکہ اس سے صرف دنیوی فائدے کا حصول مطلوب ہو، تو وہ انسان کے لیے وبال اور اس کی آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ (۳) ’’تین شخص‘‘ حدیث میں جن تین اشخاص کا ذکر ہے، حدیث نمبر: ۴۴۶۳ میں ان میں سے صری ایک شخص کا ذکر ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پانچ شخص بن گئے۔ گویا تین کا لفظ حصر کے لیے نہیں بلکہ یادداشت کے لیے ہے۔ ویسے بھی تین میں زائد کی نفی نہیں۔ احادیث میں کئی مقامات پر ایسے ہے۔ اسے اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو آپ کے ذہن میں تھے یا جن کو آپ نے موقع محل کے مناسب سمجھا، ذکر فرما دیا۔ اس سے باقی کی نفی نہیں ہو گی۔ (۴) ’دپانی سے روک دے‘‘ پانی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری چیز ہے۔ اس کے نہ ملنے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ نے مفت مہیا کیا ہے، لہٰذا زائد پانی روکنے کا کوئی جواز نہیں، البتہ اگر اپنی ضرورت سے زائد نہ ہو تو روکا جا سکتا ہے لیکن پینے سے نہیں روکا جا سکتا الا یہ کہ اپنے پینے کے لیے رکھا گیا ہو۔ (۵) ’’عصر کے بعد‘‘ ممکن ہے یہ قید اتفاقی ہو کیونکہ عصر کے بعد خرید و فروخت زیادہ ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے، یہ قید قصداً ذکر کی گئی ہو کیونکہ عصر دن کا آخر وقت ہے جو انسان کو موت اور قیامت کی یاد دلاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ توبہ و استغفار کا وقت ہے۔ ایسے وقت میں جھوٹی قسمیں کھانا انتہائی قبیح کام ہے۔