سنن النسائي - حدیث 4462

كِتَابُ الْبُيُوعِ مَا يَجِبُ عَلَى التُّجَّارِ مِنَ التَّوْقِيَةِ فِي مُبَايَعَتِهِمْ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ عَنْ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي قَتَادَةُ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4462

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: تاجروں کو خرید و فروخت میں کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے؟ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دو خرید و فروخت کرنے والے جبب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، انہیں سودا ختم کرنے کا اختیار رہتا ہے۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر بات وضاحت سے بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت ہو گی۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور صورت حال چھپا لیں تو ان کے سودے سے برکت اٹھ جائے گی۔‘‘
تشریح : (۱) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تاجروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خرید و فروخت کرتے وقت شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے معاملات طے کریں۔ ایک دوسرے سے نہ تو جھوٹ بولیں اور نہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کریں بلکہ سچ کا دامن تھامے رکھیں اور ہر صورت میں سچی بات کریں اور سچ پر پہرہ دیتے رہیں۔ بائع اور مشتری دونوں کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں۔ بائع پر واجب ہے کہ وہ اپنی مبیع (جو چیز وہ بیچ رہا ہیض کے متعلق درست معلومات دے۔ اگر اس میں کوئی نقص اور عیب وغیرہ ہو تو خریدار کو اس سے مطلع کرے۔ دائو نہ لگائے۔ ایک مسلمان تاجر کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ وہ عیب اور نقص والی یا دو نمبر چیز، بتائے بغیر فروخت کرے۔ یہ حرام ہے۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ برکت تب ہو گی جب تجارت سچ پر مبنی ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ حصول برکت کے لیے تاجر لوگ سچ بول کر ہی اپنی تجارت کو فروغ دیں۔ تجارت میں جھوٹ بولنے اور سودے کا عیب چھپانے سے نہ صرف برکت حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ضمیر کی خلش الگ بے چین کرتی رہتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ (۳) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیوی فوائد کا حقیقی اور بھرپور حصول بھی عمل صالح سے ہوتا ہے جبکہ گناہوں کی نحوست اور دنیا و آخرت، دونوں کی خیر و برکت تباہ و برباد ہو جاتی ہے، اس لیے اس زریں قانون فطرت کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر اپنے تمام معاملات ترتیب دینے چاہئیں۔ (۴) ’’اختیار رہتا ہے‘‘ اسے خیار مجلس کہا جاتا ہے، یعنی جب تک فریقین سودے والی جگہ میں بیٹھے ہیں، وہ چاہیں تو ان میں سے کوئی بھی سودا واپس کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ فریق ثانی کے لیے اسے ماننا لازم ہو گا، البتہ اگر مجلس بدل جائے تو پھر دونوں کی رضامندی ہی سے سودا واپس ہو سکتا ہے۔ احناف و موالک خیار مجلس کے قائل نہیں کہ خیار مجلس کی کوئی حد نہیں، نیز یہ اختیار اصول کے خلاف ہے کیونکہ طے شدہ سودے کو ایک فریق ختم نہیں کر سکتا۔ اس حدیث کی وہ تاویل کرتے ہیں کہ یہاں ’’جدا ہونے‘‘ سے مراد سودے کی بات چیت کا طے ہونا ہے، حالانکہ یہ بات بیان کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو بدیہی بات ہے، نیز اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ نے اسے ظاہری معنی پر ہی محمول کیا ہے۔ بعض دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ واپسی کے ڈر سے کوئی جگہ نہ بدلے۔ گویا یہ معنی قطعی ہے کہ جب تک مجلس نہ بدلے، اختایر قائم رہتا ہے۔ باقی رہی اصول کی بات تو اصول بھی احادیث ہی سے ثابت ہوتے ہیں، نیز حدیث بھی تو اصول شرع میں سے ایک بنیادی اصل ہے، لہٰذا اصول کا نام لے کر کسی صحیح اور صریح حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ (۵) ’’وضاحت سے بیان کریں‘‘ یعنی اپنی اپنی چیز کے عیوب و نقائص وغیرہ۔ (۶) ’’برکت اٹھ جائے گی‘‘ یعنی مال حرام ہو جائے گا اور کثیر ہونے کے باوجود ضروریات پوری نہیں کرے گا اور ضائع ہوتا رہے گا۔ پریشانی الگ ہو گی۔ (۱) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تاجروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خرید و فروخت کرتے وقت شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے معاملات طے کریں۔ ایک دوسرے سے نہ تو جھوٹ بولیں اور نہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کریں بلکہ سچ کا دامن تھامے رکھیں اور ہر صورت میں سچی بات کریں اور سچ پر پہرہ دیتے رہیں۔ بائع اور مشتری دونوں کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں۔ بائع پر واجب ہے کہ وہ اپنی مبیع (جو چیز وہ بیچ رہا ہیض کے متعلق درست معلومات دے۔ اگر اس میں کوئی نقص اور عیب وغیرہ ہو تو خریدار کو اس سے مطلع کرے۔ دائو نہ لگائے۔ ایک مسلمان تاجر کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ وہ عیب اور نقص والی یا دو نمبر چیز، بتائے بغیر فروخت کرے۔ یہ حرام ہے۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ برکت تب ہو گی جب تجارت سچ پر مبنی ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ حصول برکت کے لیے تاجر لوگ سچ بول کر ہی اپنی تجارت کو فروغ دیں۔ تجارت میں جھوٹ بولنے اور سودے کا عیب چھپانے سے نہ صرف برکت حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ضمیر کی خلش الگ بے چین کرتی رہتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ (۳) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیوی فوائد کا حقیقی اور بھرپور حصول بھی عمل صالح سے ہوتا ہے جبکہ گناہوں کی نحوست اور دنیا و آخرت، دونوں کی خیر و برکت تباہ و برباد ہو جاتی ہے، اس لیے اس زریں قانون فطرت کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر اپنے تمام معاملات ترتیب دینے چاہئیں۔ (۴) ’’اختیار رہتا ہے‘‘ اسے خیار مجلس کہا جاتا ہے، یعنی جب تک فریقین سودے والی جگہ میں بیٹھے ہیں، وہ چاہیں تو ان میں سے کوئی بھی سودا واپس کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ فریق ثانی کے لیے اسے ماننا لازم ہو گا، البتہ اگر مجلس بدل جائے تو پھر دونوں کی رضامندی ہی سے سودا واپس ہو سکتا ہے۔ احناف و موالک خیار مجلس کے قائل نہیں کہ خیار مجلس کی کوئی حد نہیں، نیز یہ اختیار اصول کے خلاف ہے کیونکہ طے شدہ سودے کو ایک فریق ختم نہیں کر سکتا۔ اس حدیث کی وہ تاویل کرتے ہیں کہ یہاں ’’جدا ہونے‘‘ سے مراد سودے کی بات چیت کا طے ہونا ہے، حالانکہ یہ بات بیان کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو بدیہی بات ہے، نیز اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ نے اسے ظاہری معنی پر ہی محمول کیا ہے۔ بعض دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ واپسی کے ڈر سے کوئی جگہ نہ بدلے۔ گویا یہ معنی قطعی ہے کہ جب تک مجلس نہ بدلے، اختایر قائم رہتا ہے۔ باقی رہی اصول کی بات تو اصول بھی احادیث ہی سے ثابت ہوتے ہیں، نیز حدیث بھی تو اصول شرع میں سے ایک بنیادی اصل ہے، لہٰذا اصول کا نام لے کر کسی صحیح اور صریح حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ (۵) ’’وضاحت سے بیان کریں‘‘ یعنی اپنی اپنی چیز کے عیوب و نقائص وغیرہ۔ (۶) ’’برکت اٹھ جائے گی‘‘ یعنی مال حرام ہو جائے گا اور کثیر ہونے کے باوجود ضروریات پوری نہیں کرے گا اور ضائع ہوتا رہے گا۔ پریشانی الگ ہو گی۔