سنن النسائي - حدیث 4461

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ التِّجَارَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ تَغْلِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَفْشُوَ الْمَالُ وَيَكْثُرَ وَتَفْشُوَ التِّجَارَةُ وَيَظْهَرَ الْعِلْمُ وَيَبِيعَ الرَّجُلُ الْبَيْعَ فَيَقُولَ لَا حَتَّى أَسْتَأْمِرَ تَاجِرَ بَنِي فُلَانٍ وَيُلْتَمَسَ فِي الْحَيِّ الْعَظِيمِ الْكَاتِبُ فَلَا يُوجَدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4461

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: تجارت کا بیان حضرت عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک یہ بھی قیامت کی نشانیاں ہیں کہ مال عام اور بہت زیادہ ہو جائے گا۔ تجارت پھیل جائے گی۔ علم (دیکھنے میں) عام ہو گا (مگر) آدمی کوئی سودا کرے گا تو کہے گا: میں سودا پکا نہیں کرتا حتی کہ میں فلاں قبیلے کے تاجر سے مشورہ کر لوں۔ اور ایک بہت بڑے قبیلے میں کاتب تلاش کیا جائے گا تو نہیں ملے گا۔‘‘
تشریح : (۱) ترجمۃ الباب کا مقصد تجارت اور سوداگری کی بابت فرامینِ رسول بیان کرنا ہے اور باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ اس میں تجارت کے عام ہونے اور علاماتِ قیامت میں سے ہونے کا ذکر ہے۔ (۲) کثرتِ مال قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ مال، انسان کے لیے خیر بھی ہو سکتا ہے اور شر بھی، تاہم دوسرا امکان بہت زیادہ ہے۔ اور یہ اس لیے کہ عام انسانوں کے انداز تجارت اور مال کمانے سے بخوبی یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں صرف مال کمانے کی فکر ہے، اور وہ آخرت کی فکر سے بالکل عاری اور غافل ہو چکے ہیں۔ ہاں، البتہ جسے اللہ توفیق عطا فرمائے تو وہ اپنے مال کے ذریعے سے جنت ہی خریدتا ہے۔ اللہم اجعلنا منہم۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ دنیوی علم کا ظہور اور امت مسلمہ میں اس کا پھیلائو علاماتِ قیامت میں سے ہے۔ اور اس میں بھی امت کے لیے کوئی زیادہ خیر اور بھلائی نہیں الا یہ کہ افراد امت اس کے ساتھ ساتھ شرعی علم حاصل کریں اور وہ احکام شریعت سے، کما حقہٗ آگاہ ہوں، لیکن عام مشاہدہ اس کے برعکس ہی ہے، تاہم جو شخص علم دین حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی، صحیح طور پر حاصل کرتا ہے تو یہ سونے پہ سہاگا ہے اور یہ بہت زیادہ خیر و بھلائی والا عمل ہے۔ (۴) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا کھلم کھلا اور صریح معجزہ ہے کہ آپ نے بہت عرصہ پہلے جن امور کی خبر دی تھی، وہ من و عن اسی طرح وقوع پذیر ہوئے جس طرح آپ نے بیان فرمایا تھا۔ (۵) ’’علم ہو گا‘‘ بعض نسخوں میں علم کی بجائے جہالت کا لفظ ہے اور وہ آئندہ کلام سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے کہ اس قدر جہالت ہو گی کہ سوجھ بوجھ رکھنے والا اور دستاویز لکھنے والا خال خال ہی ملے گا۔ اگر یہاں لفظ علم ہی ہو تو پھر مناسبت یوں ہو گی کہ دیکھنے میں تو علم بہت ہو گا مگر لیاقت نہیں ہو گی حتی کہ نہ تجارت کی سوجھ بوجھ ہو گی نہ دستاویز لکھنا آئے گی۔ آج کل بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ سکول عام ہیں، استاد بھی بہت ہیں مگر نہ اساتذہ خلوص سے پڑھاتے ہیں نہ طلبہ محنت سے پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے جاہل بڑھ رہے ہیں۔ (۱) ترجمۃ الباب کا مقصد تجارت اور سوداگری کی بابت فرامینِ رسول بیان کرنا ہے اور باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ اس میں تجارت کے عام ہونے اور علاماتِ قیامت میں سے ہونے کا ذکر ہے۔ (۲) کثرتِ مال قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ مال، انسان کے لیے خیر بھی ہو سکتا ہے اور شر بھی، تاہم دوسرا امکان بہت زیادہ ہے۔ اور یہ اس لیے کہ عام انسانوں کے انداز تجارت اور مال کمانے سے بخوبی یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں صرف مال کمانے کی فکر ہے، اور وہ آخرت کی فکر سے بالکل عاری اور غافل ہو چکے ہیں۔ ہاں، البتہ جسے اللہ توفیق عطا فرمائے تو وہ اپنے مال کے ذریعے سے جنت ہی خریدتا ہے۔ اللہم اجعلنا منہم۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ دنیوی علم کا ظہور اور امت مسلمہ میں اس کا پھیلائو علاماتِ قیامت میں سے ہے۔ اور اس میں بھی امت کے لیے کوئی زیادہ خیر اور بھلائی نہیں الا یہ کہ افراد امت اس کے ساتھ ساتھ شرعی علم حاصل کریں اور وہ احکام شریعت سے، کما حقہٗ آگاہ ہوں، لیکن عام مشاہدہ اس کے برعکس ہی ہے، تاہم جو شخص علم دین حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی، صحیح طور پر حاصل کرتا ہے تو یہ سونے پہ سہاگا ہے اور یہ بہت زیادہ خیر و بھلائی والا عمل ہے۔ (۴) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا کھلم کھلا اور صریح معجزہ ہے کہ آپ نے بہت عرصہ پہلے جن امور کی خبر دی تھی، وہ من و عن اسی طرح وقوع پذیر ہوئے جس طرح آپ نے بیان فرمایا تھا۔ (۵) ’’علم ہو گا‘‘ بعض نسخوں میں علم کی بجائے جہالت کا لفظ ہے اور وہ آئندہ کلام سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے کہ اس قدر جہالت ہو گی کہ سوجھ بوجھ رکھنے والا اور دستاویز لکھنے والا خال خال ہی ملے گا۔ اگر یہاں لفظ علم ہی ہو تو پھر مناسبت یوں ہو گی کہ دیکھنے میں تو علم بہت ہو گا مگر لیاقت نہیں ہو گی حتی کہ نہ تجارت کی سوجھ بوجھ ہو گی نہ دستاویز لکھنا آئے گی۔ آج کل بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ سکول عام ہیں، استاد بھی بہت ہیں مگر نہ اساتذہ خلوص سے پڑھاتے ہیں نہ طلبہ محنت سے پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے جاہل بڑھ رہے ہیں۔