سنن النسائي - حدیث 4459

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ اجْتِنَابِ الشُّبُهَاتِ فِي الْكَسْبِ صحيح حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ مَا يُبَالِي الرَّجُلُ مِنْ أَيْنَ أَصَابَ الْمَالَ مِنْ حَلَالٍ أَوْ حَرَامٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4459

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: کمائی کے دوران مشتبہ چیزوں سے بچنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ آدمی پروا نہیں کرے گا کہ مال کہاں سے آ رہا ہے؟ حلال (طریقے) سے یا حرام سے؟‘‘
تشریح : (۱) اس باب کے قائم کرنے سے امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد، کمائی میں شبہات سے بچنے کا شوق دلانا ہے کوینکہ جب انسان شبہات سے نہیں بچتا بلکہ ان کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر مشتبہ اشیاء میں پڑنا اسے محرمات (اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیائ) کی طرف گھسیٹ لے جاتا ہے۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کا کھلا معجزہ ہے کہ آپ ﷺ نے جس بات کی پیشین گوئی اپنے عہد مبارک میں فرمائی تھی وہ آج من و عن پوری ہو رہی ہے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی زمانے میں حلال، ساری دنیا سے مکمل طور پر، ختم نہیں ہو گا بلکہ کسی نہ کسی جگہ یہ موجود رہے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ ہر مسلمان شخص کسب حلال کی کوشش کرے۔ جب وہ طلب حلال میں مخلص ہو گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرمائے گا۔ (۴) ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ لوگوں کا مقصود صرف مال ہو گا۔ مال ملے جہاں سے بھی ملے۔ حلال و حرام کی تمیز نہیں رہے گی۔ آج ہمارے ملک میں عموماً یہی فضا ہے۔ ہر شخص، ہر ادارہ، ہر جماعت، ہر تنظیم حصول مال کو اولیں مقصد قرار دے رہے ہیں۔ حلال و حرام بعد کی بات ہے، حتی کہ مذہبی ادارے اور تنظیمیں بھی کوئی خاص احتیاط کا ثبوت نہیں دے رہے۔ الا ما شاء اللہ۔ (۱) اس باب کے قائم کرنے سے امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد، کمائی میں شبہات سے بچنے کا شوق دلانا ہے کوینکہ جب انسان شبہات سے نہیں بچتا بلکہ ان کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر مشتبہ اشیاء میں پڑنا اسے محرمات (اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیائ) کی طرف گھسیٹ لے جاتا ہے۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کا کھلا معجزہ ہے کہ آپ ﷺ نے جس بات کی پیشین گوئی اپنے عہد مبارک میں فرمائی تھی وہ آج من و عن پوری ہو رہی ہے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی زمانے میں حلال، ساری دنیا سے مکمل طور پر، ختم نہیں ہو گا بلکہ کسی نہ کسی جگہ یہ موجود رہے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ ہر مسلمان شخص کسب حلال کی کوشش کرے۔ جب وہ طلب حلال میں مخلص ہو گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرمائے گا۔ (۴) ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ لوگوں کا مقصود صرف مال ہو گا۔ مال ملے جہاں سے بھی ملے۔ حلال و حرام کی تمیز نہیں رہے گی۔ آج ہمارے ملک میں عموماً یہی فضا ہے۔ ہر شخص، ہر ادارہ، ہر جماعت، ہر تنظیم حصول مال کو اولیں مقصد قرار دے رہے ہیں۔ حلال و حرام بعد کی بات ہے، حتی کہ مذہبی ادارے اور تنظیمیں بھی کوئی خاص احتیاط کا ثبوت نہیں دے رہے۔ الا ما شاء اللہ۔