سنن النسائي - حدیث 4458

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ اجْتِنَابِ الشُّبُهَاتِ فِي الْكَسْبِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَاللَّهِ لَا أَسْمَعُ بَعْدَهُ أَحَدًا يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَاتٍ وَرُبَّمَا قَالَ وَإِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَةً قَالَ وَسَأَضْرِبُ لَكُمْ فِي ذَلِكَ مَثَلًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَمَى حِمًى وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا حَرَّمَ وَإِنَّهُ مَنْ يَرْتَعُ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْحِمَى وَرُبَّمَا قَالَ إِنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُرْتِعَ فِيهِ وَإِنَّ مَنْ يُخَالِطُ الرِّيبَةَ يُوشِكُ أَنْ يَجْسُرَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4458

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: کمائی کے دوران مشتبہ چیزوں سے بچنا حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا، اور اللہ کی قسم! میں آپ کے بعد کسی سے نہ سنوں گا، آپ فرما رہے تھے: ’’حلال واضح ہے، حرام بھی واضح ہے لیکن ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں بھی ہیں۔ اس سلسلے میں، میں تمہیں ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے کچھ علاقہ ممنوعہ قرار دیا ہے اور وہ علاقہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ جو شخص اس ممنوعہ علاقے کے قریب قریب (جانور) چرائے گا، بہت ممکن ہے کہ وہ اس ممنوعہ علاقے میں چرنے لگے۔ اسی طرح جو شخص مشتبہ کام کرتا ہے، بہت ممکن ہے کہ وہ حرام کام پر بھی جرأت کر بیٹھے۔‘‘
تشریح : (۱) کسب معاش میں شبہات سے بچنا چاہیے، یعنی انسان کی کمائی بالکل صاف ستھری اور حلال طیب ہونی چاہیے نہ کہ مشکوک و مشتبہ۔ (۲) حلال اور حرام، دونوں واضح ہیں لیکن اس شخص کے لیے جسے شرعی نصوص کا علم ہو۔ ہر کسی کو یہ فضیلت حاصل نہیں۔ یہ مرتبہ اور بصیرت راسخ فی العلم اہل علم کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ۔ (۳) یہ حدیث بہت زیادہ قدر و منزلت والی ہے۔ اکثر محدثین کرام نے اسے ’’کتاب البیوع‘‘ میں بیان فرمایا ہے کیونکہ زیادہ تر شکوک و شبہات معاملات ہی میں ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ اس حدیث کا تعلق نکاح و طلاق، مطعومات و مشروبات اور شکار وغیرہ کے ساتھ بھی ہے۔ جو شخص غور و فکر کرے گا، اسے یہ سب کچھ بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ (۴) حلال و حرام کے درمیان ایک ایسا درجہ ہے جس کی معرفت اور پہنچان ضروری ہے اور اس سے بچنا بھی۔ اور وہ ایسے شبہات اور ایسی مشکوک و مشتبہ اشیاء کا درجہ ہے جن کی حلت و حرمت دونوں غیر واضح ہیں، اس لیے ایک عقل مند شخص کے لیے اس درجے کی معرفت بہت ضروری ہے۔ (۵) کسی مسئلے اور شرعی حکم کی وضاحت کے لیے مثال بیان کی جا سکتی ہے تاکہ وہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مثال بیان فرمائی۔ (۶) جو شخص شبہات کا شکار ہوتا ہے، اس کا دین اور اس کی عزت داغ دار ہو جاتے ہیں۔ (۷) احکام کی تین قسمیں ہیں: ایک قسم ایسے احکام کی ہے کہ قرآن و حدیث میں انہیں بجا لانے کا تقاضا ہے اور نہ کرنے پر وعید ہے۔ دوسری قسم ایسے احکام کی ہے کہ ان کے نہ کرنے کی نص ہو اور کرنے پر وعید ہو۔ اور تیسری قسم ایسے احکام کی ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی نص نہ ہو۔ پہلی قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں اور دوسری قسم کے احکام واضح طور پر حرام جبکہ تیسری قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں نہ واضح طور پر حرام بلکہ وہ مشتبہ ہیں۔ جن احکام کی صورت حال اس طرح ہو ان سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ انسان حرام کا مرتکب نہ ہو۔ (۸) ’’ممنوعہ علاقہ‘‘ عرب میں عام رواج تھا کہ بادشاہ اور سردار کچھ علاقہ اپنے جانوروں کے چرنے کے لیے مخصوص قرار دے دیتے تھے۔ عام لوگ وہاں جانور نہیں چرا سکتے تھے بلکہ لوگ ڈرتے ہوئے اس علاقے کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے کہ کہیں غلطی ہی سے جانور اس علاقے میں داخل نہ ہو جائیں اور بادشاہ کے کارندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی مثال حرام، حلال اور مشتبہ چیزوں کے لیے بیان فرمائی۔ مخصوص علاقہ ’’حرام ہے‘‘ قریبی علاقہ ’’مشتبہ‘‘ ہے۔ اور دور کا علاقہ ’’حلال‘‘ ہے۔ محفوظ وہی شخص ہے جو صرف حلال علاقے میں رہے۔ مشتبہ علاقے میں جانے والے کے لیے خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی حرام کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے۔ عموماً مشتبہ کام کرنے والا حرام سے نہیں بچ سکتا۔ (۱) کسب معاش میں شبہات سے بچنا چاہیے، یعنی انسان کی کمائی بالکل صاف ستھری اور حلال طیب ہونی چاہیے نہ کہ مشکوک و مشتبہ۔ (۲) حلال اور حرام، دونوں واضح ہیں لیکن اس شخص کے لیے جسے شرعی نصوص کا علم ہو۔ ہر کسی کو یہ فضیلت حاصل نہیں۔ یہ مرتبہ اور بصیرت راسخ فی العلم اہل علم کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ۔ (۳) یہ حدیث بہت زیادہ قدر و منزلت والی ہے۔ اکثر محدثین کرام نے اسے ’’کتاب البیوع‘‘ میں بیان فرمایا ہے کیونکہ زیادہ تر شکوک و شبہات معاملات ہی میں ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ اس حدیث کا تعلق نکاح و طلاق، مطعومات و مشروبات اور شکار وغیرہ کے ساتھ بھی ہے۔ جو شخص غور و فکر کرے گا، اسے یہ سب کچھ بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ (۴) حلال و حرام کے درمیان ایک ایسا درجہ ہے جس کی معرفت اور پہنچان ضروری ہے اور اس سے بچنا بھی۔ اور وہ ایسے شبہات اور ایسی مشکوک و مشتبہ اشیاء کا درجہ ہے جن کی حلت و حرمت دونوں غیر واضح ہیں، اس لیے ایک عقل مند شخص کے لیے اس درجے کی معرفت بہت ضروری ہے۔ (۵) کسی مسئلے اور شرعی حکم کی وضاحت کے لیے مثال بیان کی جا سکتی ہے تاکہ وہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مثال بیان فرمائی۔ (۶) جو شخص شبہات کا شکار ہوتا ہے، اس کا دین اور اس کی عزت داغ دار ہو جاتے ہیں۔ (۷) احکام کی تین قسمیں ہیں: ایک قسم ایسے احکام کی ہے کہ قرآن و حدیث میں انہیں بجا لانے کا تقاضا ہے اور نہ کرنے پر وعید ہے۔ دوسری قسم ایسے احکام کی ہے کہ ان کے نہ کرنے کی نص ہو اور کرنے پر وعید ہو۔ اور تیسری قسم ایسے احکام کی ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی نص نہ ہو۔ پہلی قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں اور دوسری قسم کے احکام واضح طور پر حرام جبکہ تیسری قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں نہ واضح طور پر حرام بلکہ وہ مشتبہ ہیں۔ جن احکام کی صورت حال اس طرح ہو ان سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ انسان حرام کا مرتکب نہ ہو۔ (۸) ’’ممنوعہ علاقہ‘‘ عرب میں عام رواج تھا کہ بادشاہ اور سردار کچھ علاقہ اپنے جانوروں کے چرنے کے لیے مخصوص قرار دے دیتے تھے۔ عام لوگ وہاں جانور نہیں چرا سکتے تھے بلکہ لوگ ڈرتے ہوئے اس علاقے کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے کہ کہیں غلطی ہی سے جانور اس علاقے میں داخل نہ ہو جائیں اور بادشاہ کے کارندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی مثال حرام، حلال اور مشتبہ چیزوں کے لیے بیان فرمائی۔ مخصوص علاقہ ’’حرام ہے‘‘ قریبی علاقہ ’’مشتبہ‘‘ ہے۔ اور دور کا علاقہ ’’حلال‘‘ ہے۔ محفوظ وہی شخص ہے جو صرف حلال علاقے میں رہے۔ مشتبہ علاقے میں جانے والے کے لیے خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی حرام کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے۔ عموماً مشتبہ کام کرنے والا حرام سے نہیں بچ سکتا۔