سنن النسائي - حدیث 4441

كِتَابُ الضَّحَايَا ذَبِيحَةُ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ نَاسًا مِنْ الْأَعْرَابِ كَانُوا يَأْتُونَا بِلَحْمٍ وَلَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ وَكُلُوا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4441

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل باب: غیر معروف شخص کا ذبح شدہ جانور؟ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے تھے اور ہمیں معلوم نہیں ہوتا تھا انہوں نے (ذبح کرتے وقت) اللہ تعالیٰ کا نام لیا ہے یا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھا لیا کرو۔‘‘
تشریح : (۱) مسلمانوں اور اہل کتاب میں سے کسی بھی شخص کا ذبح کیا ہوا جانور حلال سمجھا جائے گا اور شک و شبہ ہونے کی صورت میں گوشت کھاتے ہوئے اللہ کا نام لینے سے شک و شبہ بھی زائل ہو جائے گا۔ لیکن سکھ، مجوسی اور مشرک وغیرہ کا ذبیحہ کھانا قطعاً جائز نہیں۔ (۲) مسلمانوں کے شہروں اور بازاروں وغیرہ میں پائی جانے والی اشیاء حلال سمجھی جائیں گی الا یہ کہ ان کی حرمت کی کوئی صریح دلیل موجود ہو، محض شک کی بنا پر کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کے کلام سے ملاحظہ فرمائیے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’غیر اسلامی ملکوں کے بازاروں میں جو گوشت بک رہا ہوتا ہے، اگر اس کی بابت یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اہل کتاب (یہودیوں یا عیسائیوں) کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے (اس وقت تک) حلال ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ (جس جانور کا وہ گوشت ہے) اس کو غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا تھا۔ یہ اس لیے کہ قرآنی نص کی رو سے تو اس کی اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہے، لہٰذا اس صورت میں، قرآن کریم کی بیان کردہ اصل (حلت) سے اس وقت تک عدول نہیں کیا جائے گا جب تک کوئی ایسی پختہ دلیل نہ مل جائے جو اس (گوشت) کے حرام ہونے کا تقاضا کرتی ہو۔ اور اگر وہ گوشت (یہود و نصاریٰ کے علاوہ) دیگر کافروں کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کا ہو تو وہ مسلمانوں پر حرام ہے اور بوجہ نص اور اجماع امت اس گوشت کو کھانا ناجائز ہے۔ ایسا گوشت محض کھاتے وقت اللہ کا نام لے لینے سے حلال نہیں ہو گا۔‘‘ و اللہ اعلم۔ دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۳۴/۵۱) (۱) مسلمانوں اور اہل کتاب میں سے کسی بھی شخص کا ذبح کیا ہوا جانور حلال سمجھا جائے گا اور شک و شبہ ہونے کی صورت میں گوشت کھاتے ہوئے اللہ کا نام لینے سے شک و شبہ بھی زائل ہو جائے گا۔ لیکن سکھ، مجوسی اور مشرک وغیرہ کا ذبیحہ کھانا قطعاً جائز نہیں۔ (۲) مسلمانوں کے شہروں اور بازاروں وغیرہ میں پائی جانے والی اشیاء حلال سمجھی جائیں گی الا یہ کہ ان کی حرمت کی کوئی صریح دلیل موجود ہو، محض شک کی بنا پر کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کے کلام سے ملاحظہ فرمائیے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’غیر اسلامی ملکوں کے بازاروں میں جو گوشت بک رہا ہوتا ہے، اگر اس کی بابت یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اہل کتاب (یہودیوں یا عیسائیوں) کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے (اس وقت تک) حلال ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ (جس جانور کا وہ گوشت ہے) اس کو غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا تھا۔ یہ اس لیے کہ قرآنی نص کی رو سے تو اس کی اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہے، لہٰذا اس صورت میں، قرآن کریم کی بیان کردہ اصل (حلت) سے اس وقت تک عدول نہیں کیا جائے گا جب تک کوئی ایسی پختہ دلیل نہ مل جائے جو اس (گوشت) کے حرام ہونے کا تقاضا کرتی ہو۔ اور اگر وہ گوشت (یہود و نصاریٰ کے علاوہ) دیگر کافروں کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کا ہو تو وہ مسلمانوں پر حرام ہے اور بوجہ نص اور اجماع امت اس گوشت کو کھانا ناجائز ہے۔ ایسا گوشت محض کھاتے وقت اللہ کا نام لے لینے سے حلال نہیں ہو گا۔‘‘ و اللہ اعلم۔ دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۳۴/۵۱)