سنن النسائي - حدیث 444

كِتَابُ الْغُسْلِ وَالتَّيَمُّمِ بَاب الْوُضُوءُ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَنْصَرِفْ وَلْيَرْقُدْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 444

کتاب: غسل اور تیمم سے متعلق احکام و مسائل عضو مخصوص کو ہاتھ لگانےسے وضوکرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آئے تو وہ نماز چھوڑ دے اور سو جائے۔‘‘
تشریح : اس مسئلے میں تھوڑی سی تفصیل ہے، وہ یہ کہ اگر نیند کا غلبہ ہے اور نماز پڑھنے والے کو کسی چیز کا شعور نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا نہیں پڑھ رہا تو ایسی صورت میں نماز بالکل چھوڑ دے۔ جب نیند کا غلبہ ختم ہو اور اس کا شعور بحال ہو تو اس وقت وضو کرے اور نماز پڑھے کیونکہ ایسی نیند جو شعور کو ختم کردے، وہ ناقض وضو ہوتی ہے، یعنی اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں منقول حدیث سے اسی مفہوم کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الوضوء، حدیث:۲۱۲، ۲۱۳) لیکن اگر نیند کا غلبہ نہیں بلکہ شعور بحال ہے، بس ویسے ہی ہلکی پھلکی اونگھ کی کیفیت طاری ہے تو اس صورت میں نماز کو مختصر کرکے مکمل کرلے، نماز کو چھوڑے نہیں کیونکہ نمازی کے حواس بحال ہیں اور شعور بھی۔ ایسی صورت میں نماز میں اختصار کرلے۔ ان شاء اللہ نماز درست ہوگی۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ اس مسئلے میں تھوڑی سی تفصیل ہے، وہ یہ کہ اگر نیند کا غلبہ ہے اور نماز پڑھنے والے کو کسی چیز کا شعور نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا نہیں پڑھ رہا تو ایسی صورت میں نماز بالکل چھوڑ دے۔ جب نیند کا غلبہ ختم ہو اور اس کا شعور بحال ہو تو اس وقت وضو کرے اور نماز پڑھے کیونکہ ایسی نیند جو شعور کو ختم کردے، وہ ناقض وضو ہوتی ہے، یعنی اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں منقول حدیث سے اسی مفہوم کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الوضوء، حدیث:۲۱۲، ۲۱۳) لیکن اگر نیند کا غلبہ نہیں بلکہ شعور بحال ہے، بس ویسے ہی ہلکی پھلکی اونگھ کی کیفیت طاری ہے تو اس صورت میں نماز کو مختصر کرکے مکمل کرلے، نماز کو چھوڑے نہیں کیونکہ نمازی کے حواس بحال ہیں اور شعور بھی۔ ایسی صورت میں نماز میں اختصار کرلے۔ ان شاء اللہ نماز درست ہوگی۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔