سنن النسائي - حدیث 4410

كِتَابُ الضَّحَايَا الْأَمْرُ بِإِحْدَادِ الشَّفْرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ اثْنَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4410

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل باب:(ذبح کے لیے) چھری تیز کرنے کا حکم حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو باتیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے خوب یاد رکھی ہیں۔ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ضروری قرار دیا ہے کہ ہر چیز پر احسان کیا جائے، لہٰذا جب تم(کسی انسان کو قصاص میں یا کسی موذی جانور اور درندے وغیرہ کو) قتل کرنے لگو تو اچھے طریقے سے قتل کرو۔ اور جب تم ذبح کرنے لگو(کسی پرندے یا حلال جانور کو) تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ اور ذبح کرتے وقت چھری تیز کر لیا کرو اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ۔‘‘
تشریح : 1)جانور کو ذبح کرنے کے لیے چھری کو تیز کرنا چاہیے تا کہ ذبح ہونے والے جانور کو تکلیف کم ہو۔2) امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حدیث قواعد اسلام کی جامع ہے۔ دیکھیے:(صحیح مسلم بشرح النووی:13/157) 3) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے، اپنی تمام مخلوق کے ساتھ، بے پناہ لطف و کرم پر دلالت کرتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت ہی ہے کہ اس نے ضروری قرار دیا ہے کہ ہر چیز کے ساتھ احساس کیا جائے بلکہ اس نے جانوورں تک کے ساتھ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح غلاموں اور مجرموں کے ساتھ بھی، مثلاََ: اگر کسی مجرم کو قصاصاََ قتل کرنے کا حکم ہے، نہ کہ اسے ایذائیں دے دے کر قتل کیا جائے۔ مزید بر آں یہ بھی کہ قتل کے مجرم کو بھی کھانے، پینے، پہننے اور زندگی کی دیگر لذتوں سے جو جائز اور مناسب ہوں، محروم نہیں کرنا۔ 4) رسول اللہ ﷺ کے فرمان’’جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔‘‘ کی بابت امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ذبح کرنے میں جانور کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے۔ ذبھ کرنے کی خاطر اسے سختی، اور بے دردی سے نہ گرائے اور نہ اسے گھسٹیتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے، تیز چھری کے ساتھ اسے ذبح کرے۔(نیز گرائے اور نہ اسے گسٹیتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے، تیر چھری کرنے اور اس تقرب الٰہی حاصل کرنے کی نیت کرے۔ اسے قبلہ رخ لٹائے۔ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ جلدی جلدی ذبح کرے۔ جانور کا گلا اور اس کی گردن کی رگیں کاٹے۔ اسے آرام پہنچائے اور(ذبح کرنے کے فوراََ بعد اس کا چمڑا اور کھال اتار نا شروع نہ کرے بلکہ) ٹھنڈا ہونے دے۔(اس کا تڑپنا ختم ہو تو تب اس کی کھال اور چمڑا اتارے۔) اور(اس کے ساتھ ساتھ) اللہ تعالیٰ کا احسان مند ہو کر اس کے احساس اور فضل و کرم کا اعتراف وا قرار کرے، نیز اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام واحسان پر کہ اس نے یہ جانور(جسے اس نے ذبح کیا ہے) اس کے لیے مسخر کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، نیز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ اگر اللہ چاہتا تو(اسے مسخر نہ فرماتا بلکہ) ہم پر مسلط کر دیتا۔ اسی طرح اگر وہ چاہتا تو اس جانور کو ہمارے لیے حلال کرنے کی بجائے ہم پر حرام کر دیتا(پھر ہم اس کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟) اور ربیعہ کہتے ہیں کہ ذبح میں احساس یہ ہے کہ اسے دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے(تاکہ دیکھنے والے کو تکلیف محسوس نہ ہو)۔ امام قرطبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے فرمان:’’جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو‘‘ کو ہر چیز کی باعت عموم پر محمول کیا جائے اور انھیں تکلیف اور عذاب دے کر نہ مارا جائے۔ دیکھیے:(المفھم:5/240‘241)۔ 5) اگر کسی شخص نے مقتول کو برے طریقے سے قتل کیا ہو تو اسے بھی برے طریقے سے قتل کیا جائے گا کیونکہ قصاص کا تقاضا یہی ہے۔ یہ بحث، المحاربہ میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ 1)جانور کو ذبح کرنے کے لیے چھری کو تیز کرنا چاہیے تا کہ ذبح ہونے والے جانور کو تکلیف کم ہو۔2) امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حدیث قواعد اسلام کی جامع ہے۔ دیکھیے:(صحیح مسلم بشرح النووی:13/157) 3) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے، اپنی تمام مخلوق کے ساتھ، بے پناہ لطف و کرم پر دلالت کرتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت ہی ہے کہ اس نے ضروری قرار دیا ہے کہ ہر چیز کے ساتھ احساس کیا جائے بلکہ اس نے جانوورں تک کے ساتھ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح غلاموں اور مجرموں کے ساتھ بھی، مثلاََ: اگر کسی مجرم کو قصاصاََ قتل کرنے کا حکم ہے، نہ کہ اسے ایذائیں دے دے کر قتل کیا جائے۔ مزید بر آں یہ بھی کہ قتل کے مجرم کو بھی کھانے، پینے، پہننے اور زندگی کی دیگر لذتوں سے جو جائز اور مناسب ہوں، محروم نہیں کرنا۔ 4) رسول اللہ ﷺ کے فرمان’’جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔‘‘ کی بابت امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ذبح کرنے میں جانور کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے۔ ذبھ کرنے کی خاطر اسے سختی، اور بے دردی سے نہ گرائے اور نہ اسے گھسٹیتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے، تیز چھری کے ساتھ اسے ذبح کرے۔(نیز گرائے اور نہ اسے گسٹیتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے، تیر چھری کرنے اور اس تقرب الٰہی حاصل کرنے کی نیت کرے۔ اسے قبلہ رخ لٹائے۔ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ جلدی جلدی ذبح کرے۔ جانور کا گلا اور اس کی گردن کی رگیں کاٹے۔ اسے آرام پہنچائے اور(ذبح کرنے کے فوراََ بعد اس کا چمڑا اور کھال اتار نا شروع نہ کرے بلکہ) ٹھنڈا ہونے دے۔(اس کا تڑپنا ختم ہو تو تب اس کی کھال اور چمڑا اتارے۔) اور(اس کے ساتھ ساتھ) اللہ تعالیٰ کا احسان مند ہو کر اس کے احساس اور فضل و کرم کا اعتراف وا قرار کرے، نیز اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام واحسان پر کہ اس نے یہ جانور(جسے اس نے ذبح کیا ہے) اس کے لیے مسخر کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، نیز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ اگر اللہ چاہتا تو(اسے مسخر نہ فرماتا بلکہ) ہم پر مسلط کر دیتا۔ اسی طرح اگر وہ چاہتا تو اس جانور کو ہمارے لیے حلال کرنے کی بجائے ہم پر حرام کر دیتا(پھر ہم اس کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟) اور ربیعہ کہتے ہیں کہ ذبح میں احساس یہ ہے کہ اسے دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے(تاکہ دیکھنے والے کو تکلیف محسوس نہ ہو)۔ امام قرطبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے فرمان:’’جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو‘‘ کو ہر چیز کی باعت عموم پر محمول کیا جائے اور انھیں تکلیف اور عذاب دے کر نہ مارا جائے۔ دیکھیے:(المفھم:5/240‘241)۔ 5) اگر کسی شخص نے مقتول کو برے طریقے سے قتل کیا ہو تو اسے بھی برے طریقے سے قتل کیا جائے گا کیونکہ قصاص کا تقاضا یہی ہے۔ یہ بحث، المحاربہ میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔