سنن النسائي - حدیث 4401

كِتَابُ الضَّحَايَا ذَبْحُ الضَّحِيَّةِ قَبْلَ الْإِمَامِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ مَنْ كَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا يَوْمٌ يُشْتَهَى فِيهِ اللَّحْمُ فَذَكَرَ هَنَةً مِنْ جِيرَانِهِ كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَّقَهُ قَالَ عِنْدِي جَذَعَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ فَرَخَّصَ لَهُ فَلَا أَدْرِي أَبَلَغَتْ رُخْصَتُهُ مَنْ سِوَاهُ أَمْ لَا ثُمَّ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَيْنِ فَذَبَحَهُمَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4401

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل امام سے پہلے قربانی ذبح کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانیوں کے دن فرمایا:’’ جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کرلی ہے وہ دوبار ذبح کرے۔‘‘ ایک آدمی اٹھ کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! یہ دن ایسا ہے کہ اس میں گوشت کی خواہش ہوتی ہے، پھر اس نے اپنے پروسیوں کی حالت شاقہ(محتاجی اور فقر و فاقے) کا ذکر کیا۔ ایسے لگتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ بھی اس کی تصدیق فرما رہے ہیں۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک جذعہ(بکری کا چھوٹی عمر کا بچہ) ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بھی مجھے زیادہ پسند ہے۔ آپ نے اسے وہی جذعہ ذبح کرنے کی رخصت دی۔ میں نہیں ، پھر آپ دو مینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انھیں ذبح کیا۔
تشریح : 1) عنوان کے ساتھ حدیث کی مناسبت بظاہر تو معلوم نہیں ہوتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے غالباََ رسول اللہ ﷺ کے فرمان:’’جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، وہ دوبارہ قربانی ذبح کرے۔‘‘ کو امام کے ذبح کرنے پر محمول کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور بعض دیگر اہل علم کا یہی قول ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ امام کے ذبح کرنے سے پہلے بھی قربانی ذبح کی جا سکتی ہے بشر طیکہ نماز عید کے بعد ہو۔ ظاہر اََ تو حدیث مبارکہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔2) افضل یہ ہے کہ انسان اپنی قربانی کا جانور خود، اپنے ہاتھوں ہی سے ذبح کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں مینڈھے خود ہی ذبح کیے تھے۔ اس پراجماع ہے، تاہم اگر کوئی دوسرا شخص بھی ذبح کر دے تو قربانی جائز ہوگی۔ 3)پورے گھرانے کی طرف ایک جانور(بھیڑ، بکریا، چھترا، چھتری اور مینڈھے وغیرہ) قربانی کفایت کر جاتی ہے، تا ہم دو یا زیادہ جانور ذبح کرنا افضل اور پسندیدہ عمل ہے۔ 1) عنوان کے ساتھ حدیث کی مناسبت بظاہر تو معلوم نہیں ہوتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے غالباََ رسول اللہ ﷺ کے فرمان:’’جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، وہ دوبارہ قربانی ذبح کرے۔‘‘ کو امام کے ذبح کرنے پر محمول کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور بعض دیگر اہل علم کا یہی قول ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ امام کے ذبح کرنے سے پہلے بھی قربانی ذبح کی جا سکتی ہے بشر طیکہ نماز عید کے بعد ہو۔ ظاہر اََ تو حدیث مبارکہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔2) افضل یہ ہے کہ انسان اپنی قربانی کا جانور خود، اپنے ہاتھوں ہی سے ذبح کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں مینڈھے خود ہی ذبح کیے تھے۔ اس پراجماع ہے، تاہم اگر کوئی دوسرا شخص بھی ذبح کر دے تو قربانی جائز ہوگی۔ 3)پورے گھرانے کی طرف ایک جانور(بھیڑ، بکریا، چھترا، چھتری اور مینڈھے وغیرہ) قربانی کفایت کر جاتی ہے، تا ہم دو یا زیادہ جانور ذبح کرنا افضل اور پسندیدہ عمل ہے۔