سنن النسائي - حدیث 4399

كِتَابُ الضَّحَايَا ذَبْحُ الضَّحِيَّةِ قَبْلَ الْإِمَامِ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبِي عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ح وَأَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ فَذَكَرَ أَحَدُهُمَا مَا لَمْ يَذْكُرْ الْآخَرُ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَضْحَى فَقَالَ مَنْ وَجَّهَ قِبْلَتَنَا وَصَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَلَا يَذْبَحْ حَتَّى يُصَلِّيَ فَقَامَ خَالِي فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي وَأَهْلَ دَارِي أَوْ أَهْلِي وَجِيرَانِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعِدْ ذِبْحًا آخَرَ قَالَ فَإِنَّ عِنْدِي عَنَاقَ لَبَنٍ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ قَالَ اذْبَحْهَا فَإِنَّهَا خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ وَلَا تَقْضِي جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4399

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل امام سے پہلے قربانی ذبح کرنا حضرت براء بن عازب ؓ نے فرمایارسو ل اللہ ﷺ عید الا ضحی ٰ کے دن ( خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : " جو شخص ہمارے قبلے کی طرف منہ کر تا ہے ، ہماری طر ح نما ز پڑ ھتا ہے اور ہما ری طر ح قربانی کر تاہے تو و ہ اپنی قر بانی ذبح نہ کر ے حتی کہ نماز عید نماز پڑھ لے ۔" میرے ماموں کھڑے ہو ئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسو ل ! میں نے تواپنی قربانی جلدی ذبح کر لی تاکہ میں اپنے گھر والوں اور محلے دار پڑ و سیوں کو (جلدی ) گو شت کھلاوں ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : " اور قربانی ذبح کر ۔ " انھوں نے کہا:میرے پاس بکری کا ایک مادہ بچہ ہے جو مجھے گوشت کے لحاظ سے دو بکریوں سے بھی اچھا لگتا ہے ۔ آپ نے فرمایا : " اسے ہی ذبح کردے ۔ وہ تیری دو قربانیوں میں سے اچھی قر بانی ہو گی ۔ لیکن تیرے علاوہ کسی کی طر ف سے جذ عہ قربانی میں کفایت نہیں کر ے گا۔"
تشریح : (1)اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص نے قربانی کا التزام کیا ہو ا گر وہ قربانی اس سے ضائع ہوجائے بایں طور کہ وہ نماز عید سے پہلے قر بانی کردے ، یا قر بانی کا جانور مرجائے ، یا اسی طر ح کا کوئی مسئلہ بن جائے تو اس کے بدلے اس پر دوسر ی قربانی واجب اور ضروری ہوگی ۔ بشرطیکہ وہ قربانی کر نے کی طاقت رکھتا ہو ۔ اگروہ شخص دوسری قربانی کی استطا عت ہی نہیں رکھتا تو اس پر قربانی کر نا واجب نہیں ہے کیو نکہ ارشاد باری ہے: ( لا یکلف اللہ نفسا الا و سعھا )(البقرۃ:2/286) "اللہ کسی نفس کو نہیں تکلیف دیتا مگر اس کی وسعت کے مطابق ہی " اسی طر ح بھی ارشاد بانی ہے : فاتقو اللہ ما استطعتم )(التغابن:64/16) اللہ تعالیٰ سے ڈر و جتنی طاقت رکھتے ہو ۔ " یا در ہے طاقت اور وسعت کے باوجو د اگر کوئی قربانی نہیں کرتا وہ گنا ہ گار ہے ۔2۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہو ا کہ احکام و مسائل میں مرجع صرف بنی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے یہ حیثیت آپ ہی کی ہے کہ افراد امت میں سے کسی کو ، کسی حکم کے ذریعے سے خاص کر دیں اور دوسرے لو گوں کو روک دیں جیسا کہ آپ نے حضرت براء بن عازب کے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار کے ساتھ کیا ۔ 3 اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہو تاہے کہ نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کر نا قطعی طور پر ناجائز ہے ، خوا ہ نیت نیکی اور ثوا ب کمانے ہی کی ہو جیسا کہ حضرت ابو بردہ ؓ کی نیت اپنے اہل و عیال اور محلے دار ( غیرب ) ہمسایوں کو گوشت کھلانے کی تھی۔4 حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ امام کو چایہے خطبہ عید میں قربانی سے متعلق احکام و مسائل بیان کرے ۔ 5 یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شارع ؑ کا ایک شخص کو خطاب تمام لوگوں کے لیے خطاب ہو تاہے ، لٰہذا دیگر لو گ بھی اس حکم کے مکلف اور پابند ہوتے ہیں حضرت ابو بردہ ؓ کو بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ بھی بیا ن فر ما دیا کہ تیرے بعداورکسی کے ، لیے قربانی میں، اس عمر کا بکری کا بچہ کفایت نہیں کرے گا ۔ اگر بنی ﷺ یہ الفاظ نہ فرماتے تو پھر ہرشخص کے لیے یہ اجازت ہوتی ۔ 6 یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیک نیتی سے کیاجانے والا صالح عمل بھی اس وقت تک اللہ کے ہا صحیح اور قابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک وہ شریعت مطہرہ کے مطابق سرانجام نہ د یا جائے ۔7 اس حدیث میں یہ ذکر تو نہیں کہ امام سے پہلے قربانی نہیں کر نی چاہیے لیکن چونکہ اس دور میں بنی ﷺ نماز عید کے بعد سب لو گوں کے سامنےوہیں قر بانی کردیتے تھے ۔ با قی لوگ بعد میں کرتے تھے ، لٰہذ ا کہا جا سکتا ہے کہ امام کے بعدقربانی کر نی چاہیے لیکن اگر امام قربانی نہ کرے یا وہ عید گا ہ میں خطبہ کے فورا بعد نہ کرے تو لوگوں پر کوئی ایسی پابندی نہیں کہ وہ لازما امام صاحب سے بعد ہی کریں ، البتہ نماز عید سے پہلے قطعا نہیں ہونی چاہیے ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ تو ایسے امام کی امامت عید ہین درست نہیں سمجھتے جو قربانی نہ کرے ، نیز ان کے نزدیک امام کو قربانی عید گا ہ میں سب سے پہلے کرنی چاہیے ۔ خیر امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی رائے اور اجتہاد ہ ہے جس سے اتفاق ضروری نہیں ۔8 اچھی قربانی ہوگی " کیونکہ وہ بروقت ہوئی اور قبول ہوئی ، بخلاف پہلی قربانی کے کہ وہ وقت سے پہلے ذبح ہونےکی وجہ سے قبولیت سے محرومی رہی ۔9"کفایت نہیں کرے گا" رسول اللہ ﷺکے مذکورالفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کا مقصود یہ تھا کہ تیرے جیسا لا چار شخص بھی مثلا : جو غلطی سے قربانی بے وقت ذبح کر چکا ہو یا اس کی قربانی کا جانور مر گیا ہو ، یا گم ہو گیا ہو اور وہ مزید خریدنے کی اسطاعت نہ رکھتا ہو ، تو بکری کا جذعہ ذبح نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ظاہر کا خیا ل رکھتے ہوئے ان کسی کو بھی ، خواہ وہ معذور و مجبو ر ہی ہو ، جذعہ ( بکرا) قربان کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ واللہ اعلم (1)اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص نے قربانی کا التزام کیا ہو ا گر وہ قربانی اس سے ضائع ہوجائے بایں طور کہ وہ نماز عید سے پہلے قر بانی کردے ، یا قر بانی کا جانور مرجائے ، یا اسی طر ح کا کوئی مسئلہ بن جائے تو اس کے بدلے اس پر دوسر ی قربانی واجب اور ضروری ہوگی ۔ بشرطیکہ وہ قربانی کر نے کی طاقت رکھتا ہو ۔ اگروہ شخص دوسری قربانی کی استطا عت ہی نہیں رکھتا تو اس پر قربانی کر نا واجب نہیں ہے کیو نکہ ارشاد باری ہے: ( لا یکلف اللہ نفسا الا و سعھا )(البقرۃ:2/286) "اللہ کسی نفس کو نہیں تکلیف دیتا مگر اس کی وسعت کے مطابق ہی " اسی طر ح بھی ارشاد بانی ہے : فاتقو اللہ ما استطعتم )(التغابن:64/16) اللہ تعالیٰ سے ڈر و جتنی طاقت رکھتے ہو ۔ " یا در ہے طاقت اور وسعت کے باوجو د اگر کوئی قربانی نہیں کرتا وہ گنا ہ گار ہے ۔2۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہو ا کہ احکام و مسائل میں مرجع صرف بنی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے یہ حیثیت آپ ہی کی ہے کہ افراد امت میں سے کسی کو ، کسی حکم کے ذریعے سے خاص کر دیں اور دوسرے لو گوں کو روک دیں جیسا کہ آپ نے حضرت براء بن عازب کے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار کے ساتھ کیا ۔ 3 اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہو تاہے کہ نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کر نا قطعی طور پر ناجائز ہے ، خوا ہ نیت نیکی اور ثوا ب کمانے ہی کی ہو جیسا کہ حضرت ابو بردہ ؓ کی نیت اپنے اہل و عیال اور محلے دار ( غیرب ) ہمسایوں کو گوشت کھلانے کی تھی۔4 حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ امام کو چایہے خطبہ عید میں قربانی سے متعلق احکام و مسائل بیان کرے ۔ 5 یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ شارع ؑ کا ایک شخص کو خطاب تمام لوگوں کے لیے خطاب ہو تاہے ، لٰہذا دیگر لو گ بھی اس حکم کے مکلف اور پابند ہوتے ہیں حضرت ابو بردہ ؓ کو بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ بھی بیا ن فر ما دیا کہ تیرے بعداورکسی کے ، لیے قربانی میں، اس عمر کا بکری کا بچہ کفایت نہیں کرے گا ۔ اگر بنی ﷺ یہ الفاظ نہ فرماتے تو پھر ہرشخص کے لیے یہ اجازت ہوتی ۔ 6 یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیک نیتی سے کیاجانے والا صالح عمل بھی اس وقت تک اللہ کے ہا صحیح اور قابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک وہ شریعت مطہرہ کے مطابق سرانجام نہ د یا جائے ۔7 اس حدیث میں یہ ذکر تو نہیں کہ امام سے پہلے قربانی نہیں کر نی چاہیے لیکن چونکہ اس دور میں بنی ﷺ نماز عید کے بعد سب لو گوں کے سامنےوہیں قر بانی کردیتے تھے ۔ با قی لوگ بعد میں کرتے تھے ، لٰہذ ا کہا جا سکتا ہے کہ امام کے بعدقربانی کر نی چاہیے لیکن اگر امام قربانی نہ کرے یا وہ عید گا ہ میں خطبہ کے فورا بعد نہ کرے تو لوگوں پر کوئی ایسی پابندی نہیں کہ وہ لازما امام صاحب سے بعد ہی کریں ، البتہ نماز عید سے پہلے قطعا نہیں ہونی چاہیے ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ تو ایسے امام کی امامت عید ہین درست نہیں سمجھتے جو قربانی نہ کرے ، نیز ان کے نزدیک امام کو قربانی عید گا ہ میں سب سے پہلے کرنی چاہیے ۔ خیر امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی رائے اور اجتہاد ہ ہے جس سے اتفاق ضروری نہیں ۔8 اچھی قربانی ہوگی " کیونکہ وہ بروقت ہوئی اور قبول ہوئی ، بخلاف پہلی قربانی کے کہ وہ وقت سے پہلے ذبح ہونےکی وجہ سے قبولیت سے محرومی رہی ۔9"کفایت نہیں کرے گا" رسول اللہ ﷺکے مذکورالفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کا مقصود یہ تھا کہ تیرے جیسا لا چار شخص بھی مثلا : جو غلطی سے قربانی بے وقت ذبح کر چکا ہو یا اس کی قربانی کا جانور مر گیا ہو ، یا گم ہو گیا ہو اور وہ مزید خریدنے کی اسطاعت نہ رکھتا ہو ، تو بکری کا جذعہ ذبح نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ظاہر کا خیا ل رکھتے ہوئے ان کسی کو بھی ، خواہ وہ معذور و مجبو ر ہی ہو ، جذعہ ( بکرا) قربان کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ واللہ اعلم