سنن النسائي - حدیث 4384

كِتَابُ الضَّحَايَا الْمُسِنَّةُ وَالْجَذَعَةُ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يُقَسِّمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ فَبَقِيَ عَتُودٌ فَذَكَرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِهِ أَنْتَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4384

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل مسنہ اور جذعہ جانور(کی قربانی) کابیان حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کچھد بکریاں دیں کہ صحابہ میں تقسیم کر دے۔ آخر میں ایک جذعہ(بکری کا ایک سالہ بچہ، یعنی میمنا) بچ گیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:’’چلو! تم اس کی قربانی کردو۔‘‘
تشریح : 1)امام اور حاکم وقت کو چاہیے کہ جب رعایا کے پاس قربانی کرنے کے لیے جانور نہ ہوں تو وہ قربانی کے جانور ان میں تقسیم کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم وہ قربانی کے جانور ان میں تقسیم کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بکریاں تقسیم فرمائیں۔ 2)حدیث مبارکہ سے مسئلہ تو کیل(کسی کو اپنا و کیل بنانا) بھی ثابت ہوتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم کرنے کے لیے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو وکیل تقسیم بنایا۔3) ایک بکری بھی قربانی کے لیے کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مقصد کی خاطر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک ایک بکری ہی تقسیم کرائی تھی۔4)جذعہ حدیث میں لفظ عتود آیا ہے اور اس سے مراد بکری کا نو جوان بچہ ہے جو ماں کے بغیر چرتا پھرتا ہے اور ایک سال کا ہو جائے۔ جذعہ بھی اسی طرح کا ہوتا ہے، لہٰذا معروف لفظ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی ہے کہ دیگر صحیح احادیث میں بھی یہی لفظ’’جذعہ‘‘ مذکور ہے جیسا کہ امام نسانی رحمہ اللہ نے خود بھی وہ احادیث بیان کی ہیں۔ سابقہ اور آنے والی احادیث ملا حظہ فرمائیں۔5)’’اس کی قربانی کردو‘‘ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ تیرے علاوہ کسی کفایت نہیں کرے گا۔ معلوم ہوا انھیں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے خاص اجازت ملی، اس لیے اب کسی فرد کے لیے اس کا جواز نہیں، خواہ تنگ دست ہی کیوں نہ ہو۔ 1)امام اور حاکم وقت کو چاہیے کہ جب رعایا کے پاس قربانی کرنے کے لیے جانور نہ ہوں تو وہ قربانی کے جانور ان میں تقسیم کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم وہ قربانی کے جانور ان میں تقسیم کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بکریاں تقسیم فرمائیں۔ 2)حدیث مبارکہ سے مسئلہ تو کیل(کسی کو اپنا و کیل بنانا) بھی ثابت ہوتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم کرنے کے لیے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو وکیل تقسیم بنایا۔3) ایک بکری بھی قربانی کے لیے کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مقصد کی خاطر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک ایک بکری ہی تقسیم کرائی تھی۔4)جذعہ حدیث میں لفظ عتود آیا ہے اور اس سے مراد بکری کا نو جوان بچہ ہے جو ماں کے بغیر چرتا پھرتا ہے اور ایک سال کا ہو جائے۔ جذعہ بھی اسی طرح کا ہوتا ہے، لہٰذا معروف لفظ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی ہے کہ دیگر صحیح احادیث میں بھی یہی لفظ’’جذعہ‘‘ مذکور ہے جیسا کہ امام نسانی رحمہ اللہ نے خود بھی وہ احادیث بیان کی ہیں۔ سابقہ اور آنے والی احادیث ملا حظہ فرمائیں۔5)’’اس کی قربانی کردو‘‘ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ تیرے علاوہ کسی کفایت نہیں کرے گا۔ معلوم ہوا انھیں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے خاص اجازت ملی، اس لیے اب کسی فرد کے لیے اس کا جواز نہیں، خواہ تنگ دست ہی کیوں نہ ہو۔