سنن النسائي - حدیث 4383

كِتَابُ الضَّحَايَا الْمُسِنَّةُ وَالْجَذَعَةُ ضعيف أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ وَهُوَ ابْنُ أَعْيَنَ وَأَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي النُّفَيْلِيَّ قَالَا حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4383

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل مسنہ اور جذعہ جانور(کی قربانی) کابیان حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم قربانی میں صرف مسنہ جانور ہی ذبح کر والا یہ تمھیں مسنہ ملنا مشکل ہو تو پھر تم بھیڑ کا جذعہ ذبح کر سکتے ہو۔‘‘
تشریح : دو دانتا جانور قربان کرنا مستحب ہے۔ مسنہ نہ ملنے یاعدم استطاعت کی صورت میں بھیڑ کا جذعہ بھی جائز ہے۔ اس کی عمر متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں کہ کتنی عمر جذعہ قربانی کے قابل ہو گا۔ جمہور اہل علم اور محدثین کا نقطہ نظریہ ہے کہ اس کی عمر سال یا سکے قریب قریب ہونی چاہیے۔ نیز معلوم ہوا کہ جذعہ، یعنی پکا کھیرا صرف بھیڑ کا قربان ہو سکتا ہے۔ بکری، گائے یا اونٹ وغیرہ کا نہیں۔ حدیث کے اس کی صریح اور ٹھوس دلیل ہیں۔ اہل علم محدثین وغیرہ کا یہی قول ہے۔ جس جانور کیک دانت گر جائیں، اسے عربی زبان میں کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے’’ دہ دانتا‘‘ اور پنجابی میں’’دوندا‘‘ کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے مسنہ کے معنی’’ایک سال‘‘ کا کیا ہے، حالانکہ یہ معنی لغت کے لحاظ سے صحیح ہیں نہ عرف کے لحاظ سے کیونکہ مسنہ لفظ سے بنا ہے جس کے معنی دانت ہوتے ہیں، نہ کہ سے جس کے معنی سال کے ہوتے ہیں۔ عرفاََ بھی بکرا ایک سال میں دو دانتا نہیں ہوتا، اکثر بعد میں ہوتا ہے۔ شاذ و نادر طور پر ایک سال کا بھی ہو سکتا ہے مگر عموماََ نہیں۔ حکم عموم سے لحاظ سے ہوتا۔ ہے۔ جبکہ اصل مقصد دانت کا گرنا ہے نہ کہ عمر، اس لیے کہ دانت گرنے کے لیے کوئی عمر معین نہیں، نیز عمر کا تعین بھی مسکل ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص بیچنے کے لیے جھوٹ بھی بول سکتا ہے، مگر دانت گرنا اور اس کی جگہ نیا دانت آنا ایک واضح اور یقینی علامت ہے جس میں فراڈ ممکن نہیں، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ قربانی کا جانور دود انتا(دوندا) ہو، بکرا ہویا گائے یا اونٹ اور یہ سب جانور مختلف عمروں میں دودانتے ہوتے ہیں، البتہ اگر یہ نہ مل سکے یا اس کی استطاعت نہ ہو تو بھیڑ کے جذعہ کی بھی اجازت ہے مگر ضروری ہے کہ وہ موٹا تازہ اور دو دانتے سے قریب ہو۔ بعض لوگوں نے تحدید کی کوشش کی ہے۔ چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک کے اقوال ہیں۔ شک و شبہ سے بچنے کے لیے ایک سال سے کم بھیڑ یا دنبہ کرنا چاہیے۔ لغت میں ایک سال قول ہی زیادہ مشہور ہے، جمہور اہل علم نے اسے ہی اختیار کیا۔ عقلاََ بھی یہی بات درست ہے کیونکہ دو دانتا نہ ہونے کی صورت میں کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس ملتا جلتا جانور ہی ذبح کیا جائے نہ کہ چھ ماہ کا جو دو دانتے سے بہت کم ہوتا ہے۔ دو دانتا جانور قربان کرنا مستحب ہے۔ مسنہ نہ ملنے یاعدم استطاعت کی صورت میں بھیڑ کا جذعہ بھی جائز ہے۔ اس کی عمر متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں کہ کتنی عمر جذعہ قربانی کے قابل ہو گا۔ جمہور اہل علم اور محدثین کا نقطہ نظریہ ہے کہ اس کی عمر سال یا سکے قریب قریب ہونی چاہیے۔ نیز معلوم ہوا کہ جذعہ، یعنی پکا کھیرا صرف بھیڑ کا قربان ہو سکتا ہے۔ بکری، گائے یا اونٹ وغیرہ کا نہیں۔ حدیث کے اس کی صریح اور ٹھوس دلیل ہیں۔ اہل علم محدثین وغیرہ کا یہی قول ہے۔ جس جانور کیک دانت گر جائیں، اسے عربی زبان میں کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے’’ دہ دانتا‘‘ اور پنجابی میں’’دوندا‘‘ کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے مسنہ کے معنی’’ایک سال‘‘ کا کیا ہے، حالانکہ یہ معنی لغت کے لحاظ سے صحیح ہیں نہ عرف کے لحاظ سے کیونکہ مسنہ لفظ سے بنا ہے جس کے معنی دانت ہوتے ہیں، نہ کہ سے جس کے معنی سال کے ہوتے ہیں۔ عرفاََ بھی بکرا ایک سال میں دو دانتا نہیں ہوتا، اکثر بعد میں ہوتا ہے۔ شاذ و نادر طور پر ایک سال کا بھی ہو سکتا ہے مگر عموماََ نہیں۔ حکم عموم سے لحاظ سے ہوتا۔ ہے۔ جبکہ اصل مقصد دانت کا گرنا ہے نہ کہ عمر، اس لیے کہ دانت گرنے کے لیے کوئی عمر معین نہیں، نیز عمر کا تعین بھی مسکل ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص بیچنے کے لیے جھوٹ بھی بول سکتا ہے، مگر دانت گرنا اور اس کی جگہ نیا دانت آنا ایک واضح اور یقینی علامت ہے جس میں فراڈ ممکن نہیں، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ قربانی کا جانور دود انتا(دوندا) ہو، بکرا ہویا گائے یا اونٹ اور یہ سب جانور مختلف عمروں میں دودانتے ہوتے ہیں، البتہ اگر یہ نہ مل سکے یا اس کی استطاعت نہ ہو تو بھیڑ کے جذعہ کی بھی اجازت ہے مگر ضروری ہے کہ وہ موٹا تازہ اور دو دانتے سے قریب ہو۔ بعض لوگوں نے تحدید کی کوشش کی ہے۔ چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک کے اقوال ہیں۔ شک و شبہ سے بچنے کے لیے ایک سال سے کم بھیڑ یا دنبہ کرنا چاہیے۔ لغت میں ایک سال قول ہی زیادہ مشہور ہے، جمہور اہل علم نے اسے ہی اختیار کیا۔ عقلاََ بھی یہی بات درست ہے کیونکہ دو دانتا نہ ہونے کی صورت میں کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس ملتا جلتا جانور ہی ذبح کیا جائے نہ کہ چھ ماہ کا جو دو دانتے سے بہت کم ہوتا ہے۔