كِتَابُ الْغُسْلِ وَالتَّيَمُّمِ بَاب الْوُضُوءِ مِنْ الْمَذْيِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ قَالَ سَمِعْتُ مُنْذِرًا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمَذْيِ مِنْ أَجْلِ فَاطِمَةَ فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ فِيهِ الْوُضُوءُ
کتاب: غسل اور تیمم سے متعلق احکام و مسائل مذی آنے سے وضو کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارے میں پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ تو میں نے مقداد سے کہا، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’اس میں وضو ہے۔‘‘ بکیر پر اختلاف کا بیان وضاحت: درج ذیل تین روایات ایک ہی حدیث کی مختلف سندیں ہیں۔ پہلی دو روایات میں بکیر سے اوپر والی سند مختلف ہے۔ پہلی روایت میں بکیر کے استاد سلیمان بن یسار ہیں جو حضرت ابن عباس سے بیان کرتے ہیں۔ دوسری روایت میں حضرت بکیر کے استاد تو سلیمان بن یسار ہیں مگر وہ یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بیان کرتے ہیں۔ تیسری روایت میں سلیمان بن یسار حضرت مقداد بن اسود سے حدیث بیان کرتے ہیں۔ تیسری روایت میں بکیر کا ذکر نہیں ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اسے صرف تائید کے لیے لائے ہیں۔ ان روایات میں ایک اور اختلاف ہے، پہلی اور تیسری روایت میں [نضح] کا ذکر ہے جب کہ دوسری روایت میں [غسل] کا ذکر ہے۔ امام ابو عبدالرحمٰن نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخرمہ بن بکیر نے اپنے والد بکیر سے کوئی حدیث نہیں سنی، گویا یہ روایت منقطع ہے، البتہ بہت سے محدثین اس روایت کو متصل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مخرمہ کا ان کے والد سے سماع صحیح ہے۔ خیر جو بھی صورت ہو متن صحیح ہے کیونکہ وہ متصل اور صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ مقصود اسانید کے اختلاف کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ اس سے ضعف لازم نہیں آتا۔ واللہ اعلم