سنن النسائي - حدیث 4374

كِتَابُ الضَّحَايَا مَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْ الأَضَاحِيِّ: الْعَوْرَاءِ​ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى بَنِي أَسَدٍ عَنْ أَبِي الضَّحَّاكِ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ مَوْلَى بَنِي شَيْبَانَ قَالَ قُلْتُ لِلْبَرَاءِ حَدِّثْنِي عَمَّا نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَضَاحِيِّ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَدِي أَقْصَرُ مِنْ يَدِهِ فَقَالَ أَرْبَعٌ لَا يَجُزْنَ الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لَا تُنْقِي قُلْتُ إِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي الْقَرْنِ نَقْصٌ وَأَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ قَالَ مَا كَرِهْتَهُ فَدَعْهُ وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4374

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل باب: ممنوع جانوروں میں سے کانے جانور کی قربانی منع ہے​ حضرت ابوضحاک عبید بن فیروز مولی بنی شیبان سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت برائ رضی اللہ عنہ سے عرض کی: مجھے بتائیے رسول اللہ ﷺ نے کن جانوروں کی قربانی سے منع فرمایا ہے؟ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے اٹھے اور (اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ویسے میرا ہاتھ ہر لحاظ سے آپ ﷺ کے ہاتھ سے کوتاہ ہے۔‘‘ چار جانور قربانی میں کفایت نہیں کرتے: کانا جانور جس کا کانا پن واضح ہو، بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو۔ اور وہ جانور جو ہڈی ٹوٹنے سے اتنا کمزور ہو چکا ہو کہ اس میں گودانہ رہا ہو۔‘‘ میں نے کہا: میں تو یہ بھی ناپسند کرتا ہوں کہ سینگ میں کوئی نقص ہو یا دانت میں کوئی نقص ہو۔ وہ فرمانے لگے: جسے تو ناپسند کرتا ہے، اس کی قربانی نہ کر لیکن کسی پر حرام نہ کر۔
تشریح : (۱) جس جانور کا کانا پن واضح ہو، اس کی قربانی جائز نہیں۔ یہی حکم دوسرے عیوب ونقائص یعنی بیمار، لنگڑے اور انتہائی لاغر وکمزور جانور کا ہے کہ اگر ان کے یہ عیوب واضح ہوں تو ان کی قربانی بھی درست نہیں ہوگی۔ (۲) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کمال درجے رسول اللہ ﷺ کا ادب واحترام کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے فعل کی نقل کرتے ہوئے جب اپنے ہاتھ کی چار انگلیوں سے قربانی کے ممنوعہ جانوروں کی بابت اشارہ کیا تو یہ بھی فرما دیا کہ میرے ہاتھ (اور انگلیوں) کا رسول اللہ ﷺ کے مبارک ہاتھ سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔ میرا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ مبارک سے، ہر لحاظ سے چھوٹا ہے۔ (۳)تقرب الی اللہ کے حصول کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تندفرست اور فربے جانور اور دوسری قیمتی اور پسندیدہ اشیاء ہی خرچ کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے، خواہ اس کے متعلق حکم شریعت نہ بھی ہو۔ (۴) حدیث مذکور اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی کی ذاتی پسند اور ناپسند کا دین وشریعت میں کوئی عمل دخل نہیں بلکہ شریعت خالصتاً منصوص (کتاب وسنت) سے ثابت امور کا نام ہے۔ اسی لیے حضرت برائ رضی اللہ عنہ نے عبید بن فیروز سے فرمایا کہ تجھے جو جانور ناپسند ہے تو اس کی قربانی نہ کر لیکن کسی اور کو مت رو۔ یہ تیرا نہیں، شریعت مطہرہ کا کام ہے، اس لیے جس عیب کے متعلق شریعت کی نص (اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ممانعت) نہیں، اس عیب کے ہوتے ہوئے بھی جانور کی قربانی جائز ہے۔ اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ واللہ اعلم! (۵) ’’کسی پر حرام نہ کر‘‘ یعنی کسی کو حرمت کا فتویٰ نہ دے۔ معمولی نقص جو محسوس نہ ہوتا ہو، قابل درگزر ہے، البتہ قربانی کرنے والا اپنی طرف سے بہترین جانور ذبح کرے۔ سینگ اور کان کے بارے میں روایات آگے آرہی ہیں اس لیے بحث بھی وہاں ہوگی۔ ان شاء اللہ (۱) جس جانور کا کانا پن واضح ہو، اس کی قربانی جائز نہیں۔ یہی حکم دوسرے عیوب ونقائص یعنی بیمار، لنگڑے اور انتہائی لاغر وکمزور جانور کا ہے کہ اگر ان کے یہ عیوب واضح ہوں تو ان کی قربانی بھی درست نہیں ہوگی۔ (۲) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کمال درجے رسول اللہ ﷺ کا ادب واحترام کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے فعل کی نقل کرتے ہوئے جب اپنے ہاتھ کی چار انگلیوں سے قربانی کے ممنوعہ جانوروں کی بابت اشارہ کیا تو یہ بھی فرما دیا کہ میرے ہاتھ (اور انگلیوں) کا رسول اللہ ﷺ کے مبارک ہاتھ سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔ میرا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ مبارک سے، ہر لحاظ سے چھوٹا ہے۔ (۳)تقرب الی اللہ کے حصول کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تندفرست اور فربے جانور اور دوسری قیمتی اور پسندیدہ اشیاء ہی خرچ کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے، خواہ اس کے متعلق حکم شریعت نہ بھی ہو۔ (۴) حدیث مذکور اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی کی ذاتی پسند اور ناپسند کا دین وشریعت میں کوئی عمل دخل نہیں بلکہ شریعت خالصتاً منصوص (کتاب وسنت) سے ثابت امور کا نام ہے۔ اسی لیے حضرت برائ رضی اللہ عنہ نے عبید بن فیروز سے فرمایا کہ تجھے جو جانور ناپسند ہے تو اس کی قربانی نہ کر لیکن کسی اور کو مت رو۔ یہ تیرا نہیں، شریعت مطہرہ کا کام ہے، اس لیے جس عیب کے متعلق شریعت کی نص (اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ممانعت) نہیں، اس عیب کے ہوتے ہوئے بھی جانور کی قربانی جائز ہے۔ اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ واللہ اعلم! (۵) ’’کسی پر حرام نہ کر‘‘ یعنی کسی کو حرمت کا فتویٰ نہ دے۔ معمولی نقص جو محسوس نہ ہوتا ہو، قابل درگزر ہے، البتہ قربانی کرنے والا اپنی طرف سے بہترین جانور ذبح کرے۔ سینگ اور کان کے بارے میں روایات آگے آرہی ہیں اس لیے بحث بھی وہاں ہوگی۔ ان شاء اللہ