سنن النسائي - حدیث 4373

كِتَابُ الضَّحَايَا بَاب ذَبْحِ النَّاسِ بِالْمُصَلَّى​ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ قَالَ شَهِدْتُ أَضْحًى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ رَأَى غَنَمًا قَدْ ذُبِحَتْ فَقَالَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيَذْبَحْ شَاةً مَكَانَهَا وَمَنْ لَمْ يَكُنْ ذَبَحَ فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4373

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل عید گاہ میں قربانی کرنے کا بیان​ حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید الاضحی میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ نے نماز ادا کر لی تو آپ نے دیکھا کہ کچھ بکریاں ذبح ہو چکی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی ہے، وہ اس کی جگہ اور بکری ذبح کرے اور جو ذبح نہیں کر چکا تو وہ اللہ عزوجل کا نام لے کر ذبح کرے۔‘‘
تشریح : (۱) مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب باندھا ہے، وہ عام لوگوں کے عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کے متعلق ہے۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عید ادا کرنے کے بعد دیکھا تو کچھ بکریاں ذبح کی جا چکی تھیں، ظاہر ہے کہ آپ نے نماز عید، عیدگاہ ہی میں پڑھائی تھی، لہٰذا ذبح کی ہوئی بکریاں بھی آپ نے وہاں ہی دیکھی ہوں گی۔ (۲)مسجد سے الگ، باہر کھلے میدان میں نماز عید ادا کرنا سنت ہے۔ عام حالات میں باہر، عید گاہ ہی میں عید ادا کی جائے، تاہم بوقت ضرورت یعنی بارش، آندھی اور سخت سردی وغیرہ کی صورت میں نماز عید، مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ (۴) نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کا جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی ذبح کرے گا تو اس کی قربانی ہرگز ہرگز نہیں ہوگی، لہٰذا اس پر قربانی کے لیے دوسرا جانور ذبح کرنا ضروری ہوگا، بشرطیکہ دوسرے جانور کی استطاعت ہو۔ یہ اس لیے کہ قربانی کا وقت مقرر ہے۔ اس سے پہلے قربانی غیر معتبر ہے، جیسے نماز کا وقت مقرر ہے۔ وقت سے پہلے پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ اسی طرح عید کی نماز کے اختتام سے قبل قربانی کا وقت نہیں ہوتا، لہٰذا قربانی دوبارہ کرنا ہوگی۔ (۱) مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب باندھا ہے، وہ عام لوگوں کے عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کے متعلق ہے۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عید ادا کرنے کے بعد دیکھا تو کچھ بکریاں ذبح کی جا چکی تھیں، ظاہر ہے کہ آپ نے نماز عید، عیدگاہ ہی میں پڑھائی تھی، لہٰذا ذبح کی ہوئی بکریاں بھی آپ نے وہاں ہی دیکھی ہوں گی۔ (۲)مسجد سے الگ، باہر کھلے میدان میں نماز عید ادا کرنا سنت ہے۔ عام حالات میں باہر، عید گاہ ہی میں عید ادا کی جائے، تاہم بوقت ضرورت یعنی بارش، آندھی اور سخت سردی وغیرہ کی صورت میں نماز عید، مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ (۴) نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کا جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی ذبح کرے گا تو اس کی قربانی ہرگز ہرگز نہیں ہوگی، لہٰذا اس پر قربانی کے لیے دوسرا جانور ذبح کرنا ضروری ہوگا، بشرطیکہ دوسرے جانور کی استطاعت ہو۔ یہ اس لیے کہ قربانی کا وقت مقرر ہے۔ اس سے پہلے قربانی غیر معتبر ہے، جیسے نماز کا وقت مقرر ہے۔ وقت سے پہلے پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ اسی طرح عید کی نماز کے اختتام سے قبل قربانی کا وقت نہیں ہوتا، لہٰذا قربانی دوبارہ کرنا ہوگی۔