سنن النسائي - حدیث 4370

كِتَابُ الضَّحَايَا بَاب مَنْ لَمْ يَجِدْ الأُضْحِيَّةَ​ ضعيف أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ وَذَكَرَ آخَرِينَ عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيِّ عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا قَالَ لَا وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4370

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل باب: جو قربانی نہ پائے تو کیا کرے؟​ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا: ’’مجھے قربانیوں والے دن کو عید بنانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے مقرر فرمایا ہے۔‘‘ اس شخص نے عرض کی: اگر میرے پاس دودھ والی بکری کے علاوہ کوئی اور جانور قربانی کے لیے نہ ہو تو فرمائیے کیا میں اسے ہی ذبح کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ لیکن تو (قربانی والے دن) اپنے بال کاٹ لے، ناخن اور مونچھیں تراش لے اور زیر ناف بال صاف کر لے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تیری طرف سے یہی مکمل قربانی شمار ہوگی۔
تشریح : (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص قربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس کے لیے شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی جسمانی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرے۔ عید والے دن اپنے بال اور ناخن تراشے۔ اپنی مونچھیں کاٹے اور زیر ناف بالوں کی صفائی کرے۔ یہ اہتمام اس کے لیے قربانی کرنے کے قائم مقام ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ (۲)عید کے دن بننا سنورنا اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا مستحب ہے چونکہ یہ لوگوں کے اجتماع کا دن ہے، اس لیے اس دن کی خاطر خاص طور پر نہانا دھونا، اچھا لباس پہننا، خوشبو لگانا اور شریعت کے بتلائے ہوئے دیگر امور بجا لانا مطلوب اور شریعت مطہرہ کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی نہ کر سکنے کے باوجود مذکورہ امور کو کما حقہ بجا لانا، اجر و ثواب میں مکمل قربانی کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ قربانی کرنے کی خصوصی اہمیت بھی اجاگر کرتی ہے کیونکہ قربانی کرنے کا اس قدر بنانا مستحب قرار دیا گیا ہے تاکہ قربانی کرنے والے لوگوں کے ساتھ بدنی مشابہت ہو جائے۔ (۴) معلوم ہوا قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے شخص کو قربانی معاف ہے۔ {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا} (۱) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص قربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس کے لیے شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی جسمانی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرے۔ عید والے دن اپنے بال اور ناخن تراشے۔ اپنی مونچھیں کاٹے اور زیر ناف بالوں کی صفائی کرے۔ یہ اہتمام اس کے لیے قربانی کرنے کے قائم مقام ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ (۲)عید کے دن بننا سنورنا اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا مستحب ہے چونکہ یہ لوگوں کے اجتماع کا دن ہے، اس لیے اس دن کی خاطر خاص طور پر نہانا دھونا، اچھا لباس پہننا، خوشبو لگانا اور شریعت کے بتلائے ہوئے دیگر امور بجا لانا مطلوب اور شریعت مطہرہ کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی نہ کر سکنے کے باوجود مذکورہ امور کو کما حقہ بجا لانا، اجر و ثواب میں مکمل قربانی کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ قربانی کرنے کی خصوصی اہمیت بھی اجاگر کرتی ہے کیونکہ قربانی کرنے کا اس قدر بنانا مستحب قرار دیا گیا ہے تاکہ قربانی کرنے والے لوگوں کے ساتھ بدنی مشابہت ہو جائے۔ (۴) معلوم ہوا قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے شخص کو قربانی معاف ہے۔ {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا}