سنن النسائي - حدیث 4368

كِتَابُ الضَّحَايَا بَابُ مَن اَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ عَنْ عُثْمَانَ الْأَحْلَافِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَدَخَلَتْ أَيَّامُ الْعَشْرِ فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا أَظْفَارِهِ فَذَكَرْتُهُ لِعِكْرِمَةَ فَقَالَ أَلَا يَعْتَزِلُ النِّسَاءَ وَالطِّيبَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4368

کتاب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل جو آدمی قربانی کرنا چاہتا ہو‘وہ اپنے بال نہ کاٹے حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو آدمی قربانی ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور ذوالحجہ شروع ہو جائے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ میں نے عکرمہ سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے: کیا وہ عورت اور خوشبو سے بھی الگ نہ رہے؟
تشریح : حضرت عکرمہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر حجامت نہیں بنوانی تو پھر عورت اور خوشبو کا استعمال بھی منع ہونا چاہیے کیونکہ محرم سے مشابہت تو تب ہی مکمل ہوگی۔ شاید انھوں نے اسے حضرت سعید بن مسیب کا اپنا قول سمجھا ہوگا۔ اور ان کو مرفوع روایت نہیں پہنچی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر تو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا۔ شریعت نے جتنی پابندی مناسب سمجھی، لگا دی، جیسے وضو اور غسل کا فرق ہے۔ جنبی کے لیے غسل مشروع فرما دیا اور محدث (بے وضو) کے لیے وضو۔ اسی طرح محرم کے لیے زیادہ پابندیاں لگا دیں اور صرف قربانی کرنے والے کے لیے کم۔ یہ کون سی قابل اعتراض بات ہے؟ حضرت عکرمہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر حجامت نہیں بنوانی تو پھر عورت اور خوشبو کا استعمال بھی منع ہونا چاہیے کیونکہ محرم سے مشابہت تو تب ہی مکمل ہوگی۔ شاید انھوں نے اسے حضرت سعید بن مسیب کا اپنا قول سمجھا ہوگا۔ اور ان کو مرفوع روایت نہیں پہنچی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر تو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا۔ شریعت نے جتنی پابندی مناسب سمجھی، لگا دی، جیسے وضو اور غسل کا فرق ہے۔ جنبی کے لیے غسل مشروع فرما دیا اور محدث (بے وضو) کے لیے وضو۔ اسی طرح محرم کے لیے زیادہ پابندیاں لگا دیں اور صرف قربانی کرنے والے کے لیے کم۔ یہ کون سی قابل اعتراض بات ہے؟