سنن النسائي - حدیث 436

كِتَابُ الْغُسْلِ وَالتَّيَمُّمِ بَاب الْوُضُوءِ مِنْ الْمَذْيِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَذَاكَرَ عَلِيٌّ وَالْمِقْدَادُ وَعَمَّارٌ فَقَالَ عَلِيٌّ إِنِّي امْرُؤٌ مَذَّاءٌ وَإِنِّي أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ مِنِّي فَيَسْأَلُهُ أَحَدُكُمَا فَذَكَرَ لِي أَنَّ أَحَدَهُمَا وَنَسِيتُهُ سَأَلَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكَ الْمَذْيُ إِذَا وَجَدَهُ أَحَدُكُمْ فَلْيَغْسِلْ ذَلِكَ مِنْهُ وَلْيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ أَوْ كَوُضُوءِ الصَّلَاةِ الِاخْتِلَافُ عَلَى سُلَيْمَانَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 436

کتاب: غسل اور تیمم سے متعلق احکام و مسائل مذی آنے سے وضو کرنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے کہ حضرت علی ، حضرت مقداد اور حضرت عمار رضی اللہ عنہم آپس میں باتیں کررہے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تحقیق مجھے مذی بہت آتی ہے اور مجھے یہ مسئلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے کیونکہ آپ کی صاحبزادی میرے نکاح میں ہے، اس لیے تم میں سے کوئی آپ سے (یہ مسئلہ) پوچھے۔ (عطاء نے کہا:) ابن عباس نے مجھے بتایا کہ ان دونوں میں سے کسی نے آپ سے پوچھا۔۔۔ میں اس کا نام بھول گیا۔۔۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی مذی کو پائے تو اسے اپنے جسم (شرمگاہ وغیرہ) سے دھو دے اور نماز والا وضو کرے۔‘‘
تشریح : وضاحت کے لیے دیکھیے، احادیث: ۱۵۲، ۱۵۳، ۱۵۷ اور ان کے فوائدومسائل۔ سلیمان پر اختلاف وضاحت: درج ذیل دو احادیث میں حضرت سلیمان اعمش کے شاگرد، سلیمان سے اوپر والی سند مختلف بیان کرتے ہیں۔ پہلی حدیث میں سلیمان کے استاد حبیب بن ابی ثابت ہیں اور دوسری حدیث میں ان کے استاد منذر ہیں۔ اس سے اوپر بھی سند مختلف ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ روایت مضطرب ہے یا کوئی ایک سند غلط ہے، بلکہ دونوں درست ہیں۔ صرف راویوں کا اختلاف بیان کرنا مقصود ہے، حدیث میں طعن کرنا مراد نہیں۔ واللہ اعلم۔ وضاحت کے لیے دیکھیے، احادیث: ۱۵۲، ۱۵۳، ۱۵۷ اور ان کے فوائدومسائل۔ سلیمان پر اختلاف وضاحت: درج ذیل دو احادیث میں حضرت سلیمان اعمش کے شاگرد، سلیمان سے اوپر والی سند مختلف بیان کرتے ہیں۔ پہلی حدیث میں سلیمان کے استاد حبیب بن ابی ثابت ہیں اور دوسری حدیث میں ان کے استاد منذر ہیں۔ اس سے اوپر بھی سند مختلف ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ روایت مضطرب ہے یا کوئی ایک سند غلط ہے، بلکہ دونوں درست ہیں۔ صرف راویوں کا اختلاف بیان کرنا مقصود ہے، حدیث میں طعن کرنا مراد نہیں۔ واللہ اعلم۔