سنن النسائي - حدیث 4357

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ بَاب مَيْتَةِ الْبَحْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا يَقُولُ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ أَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ نَرْصُدُ عِيرَ قُرَيْشٍ فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ قَالَ فَأَلْقَى الْبَحْرُ دَابَّةً يُقَالُ لَهَا الْعَنْبَرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ وَادَّهَنَّا مِنْ وَدَكِهِ فَثَابَتْ أَجْسَامُنَا وَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَظَرَ إِلَى أَطْوَلِ جَمَلٍ وَأَطْوَلِ رَجُلٍ فِي الْجَيْشِ فَمَرَّ تَحْتَهُ ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ فَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ قَالَ فَأَخْرَجْنَا مِنْ عَيْنَيْهِ كَذَا وَكَذَا قُلَّةً مِنْ وَدَكٍ وَنَزَلَ فِي حَجَّاجِ عَيْنِهِ أَرْبَعَةُ نَفَرٍ وَكَانَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ جِرَابٌ فِيهِ تَمْرٌ فَكَانَ يُعْطِينَا الْقَبْضَةَ ثُمَّ صَارَ إِلَى التَّمْرَةِ فَلَمَّا فَقَدْنَاهَا وَجَدْنَا فَقْدَهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4357

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل سمندری مردہ جانوروں کا حکم حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم تین سو اونٹ سواروں کو (ساحل کی طرف) بھیجا۔ ہمارے امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح تھے۔ ہم قریش کے ایک قافلے کی گھات میں تھے۔ ہم ساحل پر جا ٹھہرے۔ ہمیں سخت بھوک کا سامنا تھا حتی کہ ہم پتے کھانے لگے، پھر سمندر (کی لہروں) نے ایک آبی جانور (ساحل پر) پھینک دیا۔ اس کوعنبر کہا جاتا تھا۔ ہم اس سے تقریباً نصف ماہ کھاتے رہے۔ ہم نے اس کی چربی کو بھی خوب استعمال کیا تو ہمارے جسم پہلے کی طرح موٹے تازے ہوگئے۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی کو کھڑا کیا، پھر لشکر میں سے سب سے اونچا اونٹ اور سب سے لمبا آدمی تلاش کیا۔ وہ آدمی اس اونٹ پر سوار ہو کر پسلی کے نیچے سے صاف گزر گیا۔ (اسی سفر کا واقعہ ہے کہ) پھر لوگ بھوک میں مبتلا ہوئے تو ایک آدمی نے تین اونٹ نحر کیے، پھر انھیں بھوک لگی تو مزید تین اونٹ نحر کر دیے، وہ پھر بھوک کا شکار ہوئے تو اسی نے مزید تین اونٹ نحر کر دیے، وہ پھر بھوک کا شکار ہوئے تو اسی نے مزید تین اونٹ نحر کیے، پھر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے (بحیثیت امیر) اسے روک دیا۔ (راوی حدیث) سفیان نے ابو زبیر سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا (انھوں نے فرمایا کہ جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس واپس پہنچے اور) ہم نے نبی ﷺ سے (اس کے متعلق) پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تمھارے پاس اس جانور کا کچھ گوشت باقی ہے؟‘‘ (حضرت جابر نے فرمایا:) ہم نے اس آبی جانور کی آنکھوں سے بہت سے مٹکے چربی کے نکالے۔ اور اس کی آنکھ کے گڑھے میں چار آدمی باآسانی اتر گئے۔ اور (اسی سفر کا واقعہ ہے کہ) حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کھجوروں کی تھیلی تھی جس میں سے وہ ہمیں مٹھی مٹھی دیا کرتے تھے، پھر نوبت ایک ایک کھجور تک آگئی۔ جب کھجوریں بالکل ختم ہوگئیں تو (اس وقت) ہمیں ایک کھجور کی قدر وقیمت معلوم ہوتی تھی۔
تشریح : (۱) ’’میتۃ البحر‘‘ (دریائی اور سمندری مردار) کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ حلال ہے۔ سابقہ اور اس حدیث میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ وہ مچھلی سمندری لہروں نے باہر پھینکی تھی، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اسے شکار نہیں کیا تھا۔ مزید برآں یہ بھی کہ اسے ذبح بھی نہیں کیا گیا تھا بلکہ ویسے ہی استعمال کیا تھا۔ تین سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اٹھارہ دن تک مسلسل اسے کھاتے رہے، بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے بھی اس میں سے کھایا۔ (۲) حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے لشکر پر امیر مقرر کرنا چاہیے جو اس لشکر کے لیے درست انتظام کرے، ان کی ضروریات وغیرہ کا خیال رکھے اور انھیں پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔ امیر کے لیے یہ بھی مستحب ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی بریت۔ (۳) امیر لشکر، ان میں سے افضل اور بہتر شخص کو بنانا چاہیے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ان کے بہترین اور اچھے لوگوں میں سے کسی کو امیر بنایا جائے۔ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے امیر کے احکام کی تعمیل کریں۔ ہاں، اگر وہ انھیں غیر شرعی حکم دے تو پھر اس کی اطاعت قطعاً جائز نہیں جیسا کہ معروف حدیث ہے: [لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی] ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کر کے کسی کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، حدیث: ۱۷۹۔ ۱۸۱) (۴) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک دنیاوی مال و متاع اور اس کی آسائشوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ انھوں نے یہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور حصول جنت کے لیے ہر قسم کے مصائب کو برداشت کیا… رضی اللہ عنہم … (۵) بھوک، غربت، افلاس اور تنگ دستی کے وقت ہمدردی اور ایثار سے بہت سی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔ اس حدیث سے اس کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے۔ (۶) انسان اپنے قریبی احباب اور دوستوں سے ان کا مال ومتاع مانگ سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا: ’’اگر تمھارے پاس عنبر مچھلی میں سے کچھ باقی ہو تو مجھے بھی دو۔‘‘ (۷) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ دور میں بھی اجتہاد جائز تھا جیسا کہ آج کے دور میں جائز ہے۔ اگلی حدیث : ۴۳۵۹ میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے یہ الفا: [لَا تَأْکُلُوہُ، ثُمَّ قَالَ: جَیْشُ رَسُوْلِ اللّٰہِV، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَنَحْنُ مُضْطَرُّونَ کُلُوا بِاسْمِ اللّٰہِ] احکام میں اجتہاد کی بہت واضح اور کھلی دلیل ہیں۔ (۸) ’’اپنی گردنوں پر اٹھایا ہوا تھا‘‘ اس میں اشارہ ہے کہ ہمارے پاس زاد راہ بہت کم مقدار میں تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے جانور کی ضرورت نہیں تھی۔ (۹) اس روایت میں واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہے، مثلاً: لشکر کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے وہ آبی جانور موجود تھا۔ اس طرح اونٹوں کو نحر کرنے کا واقعہ آبی جانور کے ملنے سے پہلے کا ہے۔ کھجوریں بانٹنے کا واقعہ بھی آبی جانور ملنے سے پہلے کا ہے اگرچہ ذکر آخر میں ہے۔ آبی جانور سے چربی وغیرہ نکالنے کے واقعات بھی ساحل سمندر سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ مدینہ منورہ سے جیسا کہ ظاہراً معلوم ہوتا ہے۔ (۱۰) اونٹ نحر کرنے والے شخص بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عباد رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ تھے۔ جو بہت سخی تھے اور سخی باپ کے بیٹے تھے۔ مذکور ہے جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کا پتا چلا تو بیٹے سے کہا: تم نے اور جانور کیوں نہ ذبح کیے؟ انھوں نے بتایا کہ امیر صاحب نے روک دیا تھا، مبادا تیرے والد محترم ناراض ہوں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور فوراً ایک بہت بڑا باغ بیٹے کے نام منتقل کر دیا تاکہ کل کو کوئی شخص سخاوت سے نہ روک سکے۔ رضی اللہ عنھما وارضاھم۔ (۱۱) ’’نحر کیے‘‘ نحر کرنا اس طرح ہوتا ہے کہ اونٹ کا بایاں گھٹنا رسی وغیرہ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور پھر جھری کی نوک اس کے لیے (گردن کی نچلی طرف انتہائی نرم گڑھے) میں چبھو دی جاتی ہے۔ اونٹ کو، دوسرے جانوروں کی طرح ذبح نہیں کیا جاتا۔ (۱) ’’میتۃ البحر‘‘ (دریائی اور سمندری مردار) کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ حلال ہے۔ سابقہ اور اس حدیث میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ وہ مچھلی سمندری لہروں نے باہر پھینکی تھی، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اسے شکار نہیں کیا تھا۔ مزید برآں یہ بھی کہ اسے ذبح بھی نہیں کیا گیا تھا بلکہ ویسے ہی استعمال کیا تھا۔ تین سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اٹھارہ دن تک مسلسل اسے کھاتے رہے، بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے بھی اس میں سے کھایا۔ (۲) حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے لشکر پر امیر مقرر کرنا چاہیے جو اس لشکر کے لیے درست انتظام کرے، ان کی ضروریات وغیرہ کا خیال رکھے اور انھیں پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔ امیر کے لیے یہ بھی مستحب ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی بریت۔ (۳) امیر لشکر، ان میں سے افضل اور بہتر شخص کو بنانا چاہیے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ان کے بہترین اور اچھے لوگوں میں سے کسی کو امیر بنایا جائے۔ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے امیر کے احکام کی تعمیل کریں۔ ہاں، اگر وہ انھیں غیر شرعی حکم دے تو پھر اس کی اطاعت قطعاً جائز نہیں جیسا کہ معروف حدیث ہے: [لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی] ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کر کے کسی کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، حدیث: ۱۷۹۔ ۱۸۱) (۴) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک دنیاوی مال و متاع اور اس کی آسائشوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ انھوں نے یہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور حصول جنت کے لیے ہر قسم کے مصائب کو برداشت کیا… رضی اللہ عنہم … (۵) بھوک، غربت، افلاس اور تنگ دستی کے وقت ہمدردی اور ایثار سے بہت سی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔ اس حدیث سے اس کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے۔ (۶) انسان اپنے قریبی احباب اور دوستوں سے ان کا مال ومتاع مانگ سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا: ’’اگر تمھارے پاس عنبر مچھلی میں سے کچھ باقی ہو تو مجھے بھی دو۔‘‘ (۷) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ دور میں بھی اجتہاد جائز تھا جیسا کہ آج کے دور میں جائز ہے۔ اگلی حدیث : ۴۳۵۹ میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے یہ الفا: [لَا تَأْکُلُوہُ، ثُمَّ قَالَ: جَیْشُ رَسُوْلِ اللّٰہِV، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَنَحْنُ مُضْطَرُّونَ کُلُوا بِاسْمِ اللّٰہِ] احکام میں اجتہاد کی بہت واضح اور کھلی دلیل ہیں۔ (۸) ’’اپنی گردنوں پر اٹھایا ہوا تھا‘‘ اس میں اشارہ ہے کہ ہمارے پاس زاد راہ بہت کم مقدار میں تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے جانور کی ضرورت نہیں تھی۔ (۹) اس روایت میں واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہے، مثلاً: لشکر کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے وہ آبی جانور موجود تھا۔ اس طرح اونٹوں کو نحر کرنے کا واقعہ آبی جانور کے ملنے سے پہلے کا ہے۔ کھجوریں بانٹنے کا واقعہ بھی آبی جانور ملنے سے پہلے کا ہے اگرچہ ذکر آخر میں ہے۔ آبی جانور سے چربی وغیرہ نکالنے کے واقعات بھی ساحل سمندر سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ مدینہ منورہ سے جیسا کہ ظاہراً معلوم ہوتا ہے۔ (۱۰) اونٹ نحر کرنے والے شخص بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عباد رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ تھے۔ جو بہت سخی تھے اور سخی باپ کے بیٹے تھے۔ مذکور ہے جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کا پتا چلا تو بیٹے سے کہا: تم نے اور جانور کیوں نہ ذبح کیے؟ انھوں نے بتایا کہ امیر صاحب نے روک دیا تھا، مبادا تیرے والد محترم ناراض ہوں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور فوراً ایک بہت بڑا باغ بیٹے کے نام منتقل کر دیا تاکہ کل کو کوئی شخص سخاوت سے نہ روک سکے۔ رضی اللہ عنھما وارضاھم۔ (۱۱) ’’نحر کیے‘‘ نحر کرنا اس طرح ہوتا ہے کہ اونٹ کا بایاں گھٹنا رسی وغیرہ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور پھر جھری کی نوک اس کے لیے (گردن کی نچلی طرف انتہائی نرم گڑھے) میں چبھو دی جاتی ہے۔ اونٹ کو، دوسرے جانوروں کی طرح ذبح نہیں کیا جاتا۔