سنن النسائي - حدیث 4355

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ بَاب مَيْتَةِ الْبَحْرِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَاءِ الْبَحْرِ هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحَلَالُ مَيْتَتُهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4355

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل سمندری مردہ جانوروں کا حکم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سمندر کے پانی کے بارے میں فرمایا: ’’سمندر کا پانی طاہر ومطہر ہے اور اس کا جانور بلا ذبح حلال ہے۔‘‘
تشریح : (۱) سمندر کا پانی ذائقے کے لحاظ سے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں رہنے والے جانوروں اور سفر کرنے والے انسانوں کی گندگی پانی ہی میں رہتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو وہ بھی پانی میں ہی گلتا سڑتا ہے۔ اس سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ شاید وہ پاک نہ ہو، اس لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کیونکہ اولاً تو وہ انتہائی کثیر پانی ہے۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ نہ تو پانی متعفن ہوتا ہے اور نہ کوئی آلودگی اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ واللہ عزیز حکیم۔ (۲) ’’طاہر ومطہر‘‘ عربی میں لفظ طہور استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں، خود بھی پاک، دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے والا۔ (۳) ’’بلا ذبح حلال ہے‘‘ عربی میں لفظ مَیْتَۃَ استعمال ہوا ہے، یعنی جو بغیر ذبح کیے مر جائے، مثلاً: جسے شکار کیا جائے یا جو طبعی موت پانی میں مر جائے۔ احناف طبعی موت والے آبی جانور کی حلت کے قائل نہیں لیکن حدیث کے الفاظ عام ہیں۔ اسی طرح یہ حدیث ہر آبی جانور کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں جبکہ امام مالک صرف ان آبی جانوروں کو حلال سمجھتے ہیں جن کے نام کے جانور خشکی میں حلال ہیں۔ اور احناف صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں، کیونکہ بعض روایات میں مچھلی کا لفظ مذکور ہے لیکن قرآن وحدیث کے الفاظ عام ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس مفہوم کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: {اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ} (المآئدۃ ۵: ۹۶) (۴) آبی جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس میں خون نہیں ہوتا۔ اور ذبح خون نکالنے کے لیے ہوتا ہے۔ باقی رہا وہ سرخ محلول جو مچھلی وغیرہ سے زخم کے وقت نکلتا ہے تو اس میں خون کی خصوصیات نہیں پائی جاتیں، مثلاً: اسے دھوپ میں رہنے دیا جائے تو وہ سفید ہو جائے گا جبکہ خون تو سیاہ ہو کر جم جاتا ہے اور حرام خون ہی ہے، لہٰذا اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ (۱) سمندر کا پانی ذائقے کے لحاظ سے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں رہنے والے جانوروں اور سفر کرنے والے انسانوں کی گندگی پانی ہی میں رہتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو وہ بھی پانی میں ہی گلتا سڑتا ہے۔ اس سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ شاید وہ پاک نہ ہو، اس لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کیونکہ اولاً تو وہ انتہائی کثیر پانی ہے۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ نہ تو پانی متعفن ہوتا ہے اور نہ کوئی آلودگی اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ واللہ عزیز حکیم۔ (۲) ’’طاہر ومطہر‘‘ عربی میں لفظ طہور استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں، خود بھی پاک، دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے والا۔ (۳) ’’بلا ذبح حلال ہے‘‘ عربی میں لفظ مَیْتَۃَ استعمال ہوا ہے، یعنی جو بغیر ذبح کیے مر جائے، مثلاً: جسے شکار کیا جائے یا جو طبعی موت پانی میں مر جائے۔ احناف طبعی موت والے آبی جانور کی حلت کے قائل نہیں لیکن حدیث کے الفاظ عام ہیں۔ اسی طرح یہ حدیث ہر آبی جانور کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں جبکہ امام مالک صرف ان آبی جانوروں کو حلال سمجھتے ہیں جن کے نام کے جانور خشکی میں حلال ہیں۔ اور احناف صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں، کیونکہ بعض روایات میں مچھلی کا لفظ مذکور ہے لیکن قرآن وحدیث کے الفاظ عام ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس مفہوم کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: {اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ} (المآئدۃ ۵: ۹۶) (۴) آبی جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس میں خون نہیں ہوتا۔ اور ذبح خون نکالنے کے لیے ہوتا ہے۔ باقی رہا وہ سرخ محلول جو مچھلی وغیرہ سے زخم کے وقت نکلتا ہے تو اس میں خون کی خصوصیات نہیں پائی جاتیں، مثلاً: اسے دھوپ میں رہنے دیا جائے تو وہ سفید ہو جائے گا جبکہ خون تو سیاہ ہو کر جم جاتا ہے اور حرام خون ہی ہے، لہٰذا اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔