سنن النسائي - حدیث 4354

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ إِبَاحَةُ أَكْلِ الْعَصَافِيرِ ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ صُهَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَامِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ إِنْسَانٍ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا إِلَّا سَأَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا قَالَ يَذْبَحُهَا فَيَأْكُلُهَا وَلَا يَقْطَعُ رَأْسَهَا يَرْمِي بِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4354

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل چڑیا کا گوشت کھانا بھی حلال ہے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص چڑیا یا اس سے بھی چھوٹے جانور کو ناحق قتل کرے، اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس سے اس کے بارے میں پوچھے گا۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے ذبح کر کے کھائے۔ اس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’اس سے بھی چھوٹا جانور‘‘ مثلاً ٹڈی۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے ’’چڑیا یا اس سے بڑا جانور‘‘ مثلاً: مرغی، کبوتر وغیرہ فَمَا فَوْقَھَا میں یہ دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ (۲) بعض لوگ شغلاً شکار کرتے ہیں۔ کھانا مقصد نہیں ہوتا بلکہ یا تو کتے بھگانے کا شوق ہوتا ہے یا نشانہ بازی کا اور وہ اپنے شوق کو شکار کی صورت میں پورا کرتے ہیں، یہ شرعاً گناہ ہے۔ کسی بھی جاندار چیز کو بلا وجہ قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ حلال جانور ہے تو اسے صرف کھانے کے لیے شکار یا ذبح کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ حرام جانور ہے تو اس کے نقصان سے بچنے کے لیے ہی اسے مارا جا سکتا ہے۔ یا دوسری معاشی ضروریات کے لیے، مثلاً: کاروبار جیسے ہاتھی کے دانت۔ صرف شوق پورا کرنے کے لیے کسی جاندار کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ (۱) ’’اس سے بھی چھوٹا جانور‘‘ مثلاً ٹڈی۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے ’’چڑیا یا اس سے بڑا جانور‘‘ مثلاً: مرغی، کبوتر وغیرہ فَمَا فَوْقَھَا میں یہ دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ (۲) بعض لوگ شغلاً شکار کرتے ہیں۔ کھانا مقصد نہیں ہوتا بلکہ یا تو کتے بھگانے کا شوق ہوتا ہے یا نشانہ بازی کا اور وہ اپنے شوق کو شکار کی صورت میں پورا کرتے ہیں، یہ شرعاً گناہ ہے۔ کسی بھی جاندار چیز کو بلا وجہ قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ حلال جانور ہے تو اسے صرف کھانے کے لیے شکار یا ذبح کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ حرام جانور ہے تو اس کے نقصان سے بچنے کے لیے ہی اسے مارا جا سکتا ہے۔ یا دوسری معاشی ضروریات کے لیے، مثلاً: کاروبار جیسے ہاتھی کے دانت۔ صرف شوق پورا کرنے کے لیے کسی جاندار کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔