سنن النسائي - حدیث 4351

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ بَاب إِبَاحَةِ أَكْلِ لُحُومِ الدَّجَاجِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ زَهْدَمٍ أَنَّ أَبَا مُوسَى أُتِيَ بِدَجَاجَةٍ فَتَنَحَّى رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقَالَ مَا شَأْنُكَ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُهَا تَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ فَقَالَ أَبُو مُوسَى ادْنُ فَكُلْ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُهُ وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْ يَمِينِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4351

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل مرغ کا گوشت کھا نا بھی جائز ہے حضرت زہدم سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مرغ لایا گیا۔ ایک شخص ایک طرف کو ہٹ گیا (باقی لوگ کھانے لگے)۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا ہے، اس لیے مجھے اس سے نفرت ہوگئی ہے۔ تو میں نے قسم کھا لی تھی کہ مرغ کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: قریب آکر کھا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے دیکھا ہے، پھر آپ نے اسے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنے کو کہا۔
تشریح : (۱) رسول اللہ ﷺ نے خود مرغ کا گوشت کھایا ہے، اس لیے اس کا گوشت کھانے میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ، اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتوں کے استعمال سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس کو تقویٰ کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ کو ایسا ’’اندھا‘‘ تقویٰ قطعاً مطلوب نہیں جو اسوئہ رسول ﷺ سے ٹکراتا ہو، بلکہ اصل تقویٰ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہو کر، کما حقہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (۲) اگر کوئی جانور یا پرندہ اس قدر زیادہ گدنگی کھاتا ہو کہ اس کا اثر اس جانور کے دودھ اور گوشت میں محسوس ہو تو ایسا جانور اس وقت تک استعمال میں نہ لایا جائے جب تک اس سے گندگی کا اثر (بو وغیرہ) زائل نہ ہو جائے۔ جب گندگی کا اثر زائل ہو جائے تو ایسے جانور یا پرندے کا گوشت اور دودھ، بلا تردد، استعمال کرنا مباح اور جائز ہے۔ ہاں، البتہ جو جانور تھوڑی بہت گندگی کھاتے رہتے ہوں اور اس کا اثر ان میں نہ ہو تو اس کو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا عمل اس کی واضہ دلیل ہے۔ (۳) صاحب طعام کو چاہیے کہ آنے والے شخص کو کھانا کھانے کی دعوت دے، اسے اپنے قریب بٹھائے اور کھانا پیش کرے، خواہ کھانا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ جب زیادہ لوگ کھانا کھائیں گے تو اس میں زیادہ برکت ہوگی، اس لیے کہ اجتماعی طور پر کھانا کھانے میں برکت ہی ہوتی ہے۔ (۴) ’’میں نے اسے‘‘ مراد وہ خاص مرغ نہیں جو بھون کر لایا گیا تھا بلکہ عام مراد ہے، یعنی مرغ گندگی کھاتے ہیں، لہٰذا میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مرغ کچھ نہ کچھ گندگی کھاتے ہی ہیں۔ اس کے باوجود میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ معلوم ہوا، اتنی گندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اگر کوئی جانور اس قدر گندگی کھاتا ہو کہ اس کے گوشت یا دودھ میں گندگی کا رنگ، بو یا ذائقہ محسوس ہو تو پھر اس جانور کا گوشت کھانا یا اس کا دودھ پینا حرام ہے۔ اس سے کم میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم (۱) رسول اللہ ﷺ نے خود مرغ کا گوشت کھایا ہے، اس لیے اس کا گوشت کھانے میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ، اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتوں کے استعمال سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس کو تقویٰ کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ کو ایسا ’’اندھا‘‘ تقویٰ قطعاً مطلوب نہیں جو اسوئہ رسول ﷺ سے ٹکراتا ہو، بلکہ اصل تقویٰ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہو کر، کما حقہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (۲) اگر کوئی جانور یا پرندہ اس قدر زیادہ گدنگی کھاتا ہو کہ اس کا اثر اس جانور کے دودھ اور گوشت میں محسوس ہو تو ایسا جانور اس وقت تک استعمال میں نہ لایا جائے جب تک اس سے گندگی کا اثر (بو وغیرہ) زائل نہ ہو جائے۔ جب گندگی کا اثر زائل ہو جائے تو ایسے جانور یا پرندے کا گوشت اور دودھ، بلا تردد، استعمال کرنا مباح اور جائز ہے۔ ہاں، البتہ جو جانور تھوڑی بہت گندگی کھاتے رہتے ہوں اور اس کا اثر ان میں نہ ہو تو اس کو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا عمل اس کی واضہ دلیل ہے۔ (۳) صاحب طعام کو چاہیے کہ آنے والے شخص کو کھانا کھانے کی دعوت دے، اسے اپنے قریب بٹھائے اور کھانا پیش کرے، خواہ کھانا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ جب زیادہ لوگ کھانا کھائیں گے تو اس میں زیادہ برکت ہوگی، اس لیے کہ اجتماعی طور پر کھانا کھانے میں برکت ہی ہوتی ہے۔ (۴) ’’میں نے اسے‘‘ مراد وہ خاص مرغ نہیں جو بھون کر لایا گیا تھا بلکہ عام مراد ہے، یعنی مرغ گندگی کھاتے ہیں، لہٰذا میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مرغ کچھ نہ کچھ گندگی کھاتے ہی ہیں۔ اس کے باوجود میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ معلوم ہوا، اتنی گندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اگر کوئی جانور اس قدر گندگی کھاتا ہو کہ اس کے گوشت یا دودھ میں گندگی کا رنگ، بو یا ذائقہ محسوس ہو تو پھر اس جانور کا گوشت کھانا یا اس کا دودھ پینا حرام ہے۔ اس سے کم میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم