سنن النسائي - حدیث 4349

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ بَاب إِبَاحَةِ أَكْلِ لُحُومِ حُمُرِ الْوَحْشِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا بَكْرٌ هُوَ ابْنُ مُضَرَ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَلَمَةَ الضَّمْرِيِّ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَثَايَا الرَّوْحَاءِ وَهُمْ حُرُمٌ إِذَا حِمَارُ وَحْشٍ مَعْقُورٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهُ فَيُوشِكُ صَاحِبُهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَهْزٍ هُوَ الَّذِي عَقَرَ الْحِمَارَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ شَأْنَكُمْ هَذَا الْحِمَارُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ يُقَسِّمُهُ بَيْنَ النَّاسِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4349

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل جنگلی گدھوں کا گوشت کھاناجائز ہے حضرت عمیر بن سلمہ ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ روحاء کے کسی مقام پر تھے۔ سب لوگ محرم تھے۔ انھوں نے ایک زخمی جنگلی گدھا دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے کچھ نہ کہو حتی کہ اس کو شکار کرنے والا آجائے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد بہز قبیلے کا وہ آدمی بھی آگیا جس نے اسے زخمی کیا تھا۔ وہ کنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ اس گدھے کو جو چاہیں کیجئے! رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اسے لوگوں میں تقسیم کر دیں۔
تشریح : (۱) شکاری شخص ہی اپنے مارے یا زخمی کیے ہوئے شکار کا مالک ہوتا ہے۔ حدیث میں مذکور، رسول اللہ ﷺ کے الفاظ : دَعُوہُ فَیُوشِکَ صَاحِبُہٗ أَنْ یَّأْتِیَہٗ اسی بات پر دلالت کرتے ہیں۔ (۲)احرام والے شخص کے لیے شکار کی طرف اشارہ کرنا، شکار کو دوڑانا یا شکار کرنا وغیرہ سب کچھ ناجائز ہے۔ ہاں،اگر غیر محرم شخص نے اپنے لیے شکار کیا ہو، جبکہ اس شکار کرنے کرانے میں اس (محرم) کا کوئی عمل دخل نہ ہو تو وہ اسے کھا سکتا ہے۔ اور اگر کوئی عمل دخل ہو تو پھر کھا بھی نہیں سکتا۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کئی لوگوں کو مشترکہ طور پر ایک چیز ہبہ کی جا سکتی ہے جیسا کہ اس ’’بہزی‘‘ شخص نے ایک جنگلی گدھا، رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو مشترکہ طور پر ہبہ کیا تھا۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اسے لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ (۱) شکاری شخص ہی اپنے مارے یا زخمی کیے ہوئے شکار کا مالک ہوتا ہے۔ حدیث میں مذکور، رسول اللہ ﷺ کے الفاظ : دَعُوہُ فَیُوشِکَ صَاحِبُہٗ أَنْ یَّأْتِیَہٗ اسی بات پر دلالت کرتے ہیں۔ (۲)احرام والے شخص کے لیے شکار کی طرف اشارہ کرنا، شکار کو دوڑانا یا شکار کرنا وغیرہ سب کچھ ناجائز ہے۔ ہاں،اگر غیر محرم شخص نے اپنے لیے شکار کیا ہو، جبکہ اس شکار کرنے کرانے میں اس (محرم) کا کوئی عمل دخل نہ ہو تو وہ اسے کھا سکتا ہے۔ اور اگر کوئی عمل دخل ہو تو پھر کھا بھی نہیں سکتا۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کئی لوگوں کو مشترکہ طور پر ایک چیز ہبہ کی جا سکتی ہے جیسا کہ اس ’’بہزی‘‘ شخص نے ایک جنگلی گدھا، رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو مشترکہ طور پر ہبہ کیا تھا۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اسے لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔