سنن النسائي - حدیث 4332

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ الْإِذْنُ فِي أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ دِينَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَهَى وَذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ وَأَذِنَ فِي الْخَيْلِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4332

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل گھوڑے کا گوشت کھانا حلال ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔
تشریح : جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑا حلال جانور ہے کیونکہ اس کی حلت کی روایات صریح ہیں اور اعلیٰ درجے کی صحیح ہیں۔ ائمہ میں سے صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گھوڑے کی حرمت کے قائل ہیں لیکن ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہ اللہ اس مسئلے میں ان کے ساتھ نہیں، مانعین کی طرف سے یہ معذرت پیش کی گئی ہے کہ وہ گھوڑے کو پلید نہیں سمجھتے، بلکہ قابل احترام ہونے کی وجہ سے حرام سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جہاد میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر گھوڑے ذبح کر کے کھائے جائیں تو جہاد کے لیے گھوڑوں کی قلت ہو جائے گی۔ ان کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ گھوڑا جنسی لحاظ سے گدھے اور خچر کا ساتھی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ان تینوں کا اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ {وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا وَ زِیْنَۃً} (النحل ۱۶: ۸) ان کا مقصد زینت اور سواری بیان کیا گیا ہے نہ کہ کھانا، لہٰذا گھوڑے کو کھانا نہیں چاہیے لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو کھائے جانے والے جانوروں میں ذکر کیا ہے جبکہ اسے خوراک کی بجائے سواری او ر باربرداری میں بھی یکساں استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ گھوڑا حلال ہے۔ اگر ضرورت پڑ جائے تو اسے کھایا جا سکتا ہے۔ ہاں، جہاد کے لیے قلت کا خطرہ ہو تو پھر گھوڑے نہ کھائے جائیں لیکن آج کل تو جہاد میں گھوڑوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا وہ وجہ بھی ختم ہوگئی جس کی بنا پر امام صاحب اس کے نہ کھانے کے قائل تھے۔ گویا اب تو اس کی حلت پر ’’اجماع‘‘ ہوگیا ہے۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ گھوڑا حلال جانور ہے کیونکہ اس کی حلت کی روایات صریح ہیں اور اعلیٰ درجے کی صحیح ہیں۔ ائمہ میں سے صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گھوڑے کی حرمت کے قائل ہیں لیکن ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہ اللہ اس مسئلے میں ان کے ساتھ نہیں، مانعین کی طرف سے یہ معذرت پیش کی گئی ہے کہ وہ گھوڑے کو پلید نہیں سمجھتے، بلکہ قابل احترام ہونے کی وجہ سے حرام سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جہاد میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر گھوڑے ذبح کر کے کھائے جائیں تو جہاد کے لیے گھوڑوں کی قلت ہو جائے گی۔ ان کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ گھوڑا جنسی لحاظ سے گدھے اور خچر کا ساتھی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ان تینوں کا اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ {وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا وَ زِیْنَۃً} (النحل ۱۶: ۸) ان کا مقصد زینت اور سواری بیان کیا گیا ہے نہ کہ کھانا، لہٰذا گھوڑے کو کھانا نہیں چاہیے لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو کھائے جانے والے جانوروں میں ذکر کیا ہے جبکہ اسے خوراک کی بجائے سواری او ر باربرداری میں بھی یکساں استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ گھوڑا حلال ہے۔ اگر ضرورت پڑ جائے تو اسے کھایا جا سکتا ہے۔ ہاں، جہاد کے لیے قلت کا خطرہ ہو تو پھر گھوڑے نہ کھائے جائیں لیکن آج کل تو جہاد میں گھوڑوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا وہ وجہ بھی ختم ہوگئی جس کی بنا پر امام صاحب اس کے نہ کھانے کے قائل تھے۔ گویا اب تو اس کی حلت پر ’’اجماع‘‘ ہوگیا ہے۔