سنن النسائي - حدیث 433

كِتَابُ الْغُسْلِ وَالتَّيَمُّمِ بَاب التَّيَمُّمِ لِمَنْ يَجِدُ الْمَاءَ بَعْدَ الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ نَافِعٍ عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَجُلَيْنِ تَيَمَّمَا وَصَلَّيَا ثُمَّ وَجَدَا مَاءً فِي الْوَقْتِ فَتَوَضَّأَ أَحَدُهُمَا وَعَادَ لِصَلَاتِهِ مَا كَانَ فِي الْوَقْتِ وَلَمْ يُعِدْ الْآخَرُ فَسَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ وَقَالَ لِلْآخَرِ أَمَّا أَنْتَ فَلَكَ مِثْلُ سَهْمِ جَمْعٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 433

کتاب: غسل اور تیمم سے متعلق احکام و مسائل تیمم کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کے بعد پانی مل جائے تو حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ دو آدمیوں نے تیمم سے نماز پڑھی مگر ابھی نماز کا وقت باقی تھا کہ پانی مل گیا۔ ان میں سے ایک نے وضو کیا اور وقت کے اندر ہی دوبارہ نماز پڑھ لی۔ دوسرے نے دوبارہ نہ پڑھی۔ پھر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے اس آدمی کو جس نے نماز نہیں دہرائی تھی، فرمایا: ’’تونے سنت کے مطابق کیا ہے۔ تیری پہلی نماز ہی تیرے لیے کافی ہے۔‘‘ اور دوسرے آدمی سے فرمایا: ’’تجھے دہرا ثواب ملے گا۔‘‘
تشریح : (۱) اصل قاعدہ یہی ہے کہ تیمم پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کی طرح ہے، لہٰذا نماز دہرانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس شخص کا اجتہاد صحیح تھا تبھی اسے ’’سنت‘‘ فرمایا اور دوسرے شخص کا اجتہاد اگرچہ صحیح نہیں مگر چونکہ نیت نیک ہے، مشقت بھی زیادہ اٹھائی ہے اور عمل صالح بھی دو مرتبہ کیا ہے، لہٰذا وہ ثواب کا حق دار بنا۔ لیکن اب دہرانے کی اجازت نہیں کیونکہ مسئلہ واضح ہوچکا ہے اور سنت متعین ہوچکی ہے۔ اب اجتہاد کی ضرورت ہے نہ اجازت۔ اور ایک فرض نماز دو دفعہ فرض کی نیت سے پڑھنا ممنوع ہے۔ (۲) [سھم جمع] کے معنی ہیں: دہرا ثواب، یعنی پہلی نماز کا بھی اور دوسری کا بھی۔ بعض حضرات نے اس کے معنی لشکر کا حصہ، یعنی ’’غنیمت‘‘ کیے ہیں۔ (۱) اصل قاعدہ یہی ہے کہ تیمم پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کی طرح ہے، لہٰذا نماز دہرانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس شخص کا اجتہاد صحیح تھا تبھی اسے ’’سنت‘‘ فرمایا اور دوسرے شخص کا اجتہاد اگرچہ صحیح نہیں مگر چونکہ نیت نیک ہے، مشقت بھی زیادہ اٹھائی ہے اور عمل صالح بھی دو مرتبہ کیا ہے، لہٰذا وہ ثواب کا حق دار بنا۔ لیکن اب دہرانے کی اجازت نہیں کیونکہ مسئلہ واضح ہوچکا ہے اور سنت متعین ہوچکی ہے۔ اب اجتہاد کی ضرورت ہے نہ اجازت۔ اور ایک فرض نماز دو دفعہ فرض کی نیت سے پڑھنا ممنوع ہے۔ (۲) [سھم جمع] کے معنی ہیں: دہرا ثواب، یعنی پہلی نماز کا بھی اور دوسری کا بھی۔ بعض حضرات نے اس کے معنی لشکر کا حصہ، یعنی ’’غنیمت‘‘ کیے ہیں۔