سنن النسائي - حدیث 4328

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ الضَّبُعُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الضَّبُعِ فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهَا فَقُلْتُ أَصَيْدٌ هِيَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ أَسَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4328

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل لگڑ بگڑ کا بیان حضرت ابن ابی عمار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہؓ سے لگڑ بگڑ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے اس کے کھانے کو کہا۔ میں نے کہا: کیا وہ شکار میں داخل ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ کہنے لگے: ہاں۔
تشریح : (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ شکار ہے، اس لیے محرم شخص اس کا شکار کرے گا تو اسے اس کی مثل یعنی مینڈھا بطور فدیا دینا پڑے گا۔ (۲) اسلاف میں یہ سوچ شعوری طور پر کار فرما تھی کہ وہ اپنے سوال کا مدلل ومحکم جواب حاصل کرنے کے لیے دلیل ضرور طلب کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابن ابو عمار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ اور انھوں نے فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ (۳)کسی بڑے سے بڑے عالم سے بھی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ (۴) دلیل طلب کرنا اس عالم کی توہین نہیں اور نہ اسے اپنی توہین ہی سمجھنا چاہیے بلکہ اسے بخوشی دلیل بیان کر دینی چاہیے۔ (۱) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ شکار ہے، اس لیے محرم شخص اس کا شکار کرے گا تو اسے اس کی مثل یعنی مینڈھا بطور فدیا دینا پڑے گا۔ (۲) اسلاف میں یہ سوچ شعوری طور پر کار فرما تھی کہ وہ اپنے سوال کا مدلل ومحکم جواب حاصل کرنے کے لیے دلیل ضرور طلب کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابن ابو عمار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ اور انھوں نے فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ (۳)کسی بڑے سے بڑے عالم سے بھی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ (۴) دلیل طلب کرنا اس عالم کی توہین نہیں اور نہ اسے اپنی توہین ہی سمجھنا چاہیے بلکہ اسے بخوشی دلیل بیان کر دینی چاہیے۔