سنن النسائي - حدیث 4321

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ الضَّبُّ صحيح أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ فَأَهْوَى إِلَيْهِ بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ قَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَرَامٌ الضَّبُّ قَالَ لَا وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ فَأَكَلَ مِنْهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4321

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل سانڈے کا بیان حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کو پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا کہ حاضرین میں سے کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ضب کا گوشت ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ضب حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ لیکن یہ میری قوم کے علاقے (میرے وطن) میں نہیں پایا جاتا، اس لیے مجھے اس سے کچھ کراہت سی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ضب کی طرف بڑھے اور اس سے کھایا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔
تشریح : (۱) کسی حلال چیز سے مطلقاً نفرت کرنا یا طبیعت کو اس کا اچھا نہ لگنا اس کی حرمت کو لازم نہیں، تفصیل گزشتہ حدیث کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (۲)کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اس کے سوا کوئی شخص طبعی کراہت یا کسی اور وجہ سے کسی حلال چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتا۔ (۳) حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی کھانے پر عیب نہیں لگاتے تھے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ بظاہر تعارض ہے، دونوں میں کیا تطبیق ہے؟ تعارض والی کوئی بات نہیں کیونکہ کسی چیز کی ناپسندیدگی اور چیز ہے اور اس پر عیب لگانا اور ہے۔ عیب لگانا تو یہ ہے کہ کوئی شخص یا اہل خانہ آپ کے لیے چیز پکائیں اور آپ اس پکی پکائی چیز میں کیڑے نکالنا شروع کر دیں وغیرہ۔ (۴) حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں کی طبیعتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سانڈے کا گوشت کھانے سے کراہت محسوس فرمائی جبکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے کھا لیا۔ (۱) کسی حلال چیز سے مطلقاً نفرت کرنا یا طبیعت کو اس کا اچھا نہ لگنا اس کی حرمت کو لازم نہیں، تفصیل گزشتہ حدیث کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ (۲)کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اس کے سوا کوئی شخص طبعی کراہت یا کسی اور وجہ سے کسی حلال چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتا۔ (۳) حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی کھانے پر عیب نہیں لگاتے تھے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ بظاہر تعارض ہے، دونوں میں کیا تطبیق ہے؟ تعارض والی کوئی بات نہیں کیونکہ کسی چیز کی ناپسندیدگی اور چیز ہے اور اس پر عیب لگانا اور ہے۔ عیب لگانا تو یہ ہے کہ کوئی شخص یا اہل خانہ آپ کے لیے چیز پکائیں اور آپ اس پکی پکائی چیز میں کیڑے نکالنا شروع کر دیں وغیرہ۔ (۴) حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں کی طبیعتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سانڈے کا گوشت کھانے سے کراہت محسوس فرمائی جبکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے کھا لیا۔