سنن النسائي - حدیث 4314

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ اتِّبَاعُ الصَّيْدِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، ح وأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، وَمَنِ اتَّبَعَ السُّلْطَانَ افْتُتِنَ» وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4314

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل شکار کے پیچھے چلتے جانا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص صحرا میں رہے گا، سخت طبیعت ہو جائے گا۔ اور جو شخص شکار کے پیچھے لگ گیا، وہ (ہر چیز سے) غافل ہوگیا۔ اور جو شخص بادشاہ کا دم چھلہ بنا، وہ آزمائش میں پڑ گیا۔‘‘ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔
تشریح : (۱) اس حدیث مبارکہ سے بادیہ نشینی اور صحرا نشینی کی مذمت کا پہلو نکلتا ہے، اور وہ اس طرح کہ ایسا شخص زیادہ تر اہل علم کی مجلس سے دور ہی رہتا ہے، اسی طرح وہ اخلاق فاضلہ سے بھی دور ہوتا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ صحرا نشین شخص جمعہ وجماعت اور اس کی دیگر خیر و برکات اور فہم دین کی مجالس و محافل سے بھی اکثر و بیشتر الگ تھلگ رہتا ہے۔ (۲) شرعاً ایک حد تک شکار کرنے کی اجازت ہے، تاہم یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ کسی انسان کا محض شکار کا ہو کر رہ جانا انتہائی مذموم ہے، اس لیے کہ ایسا شخص اپنے دینی اور دنیوی واحباب و فرائض سے غافل ہو جاتا ہے۔ شکار کے لیے جانا بالکل ممنوع نہیں۔ اگر شکار ممنوع ہوتا تو رسول اللہﷺ حضرت عدی بن حاتم اور ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کو اس کی اجازت نہ دیتے۔ المختصر اعتدال میں رہتے ہوئے شکار کرنا درست ہے، افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ (۳)حدیث مذکور سے حکمرانوں اور صاحب اختیار واقتدار لوگوں کا کاسہ لیسی کرنے اور ان کے دروازوں پر حاضری دینے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ملوک وسلاطین کا قرب اچھے بھلے انسان کو فتنوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ فتنے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں جسمانی بھی اور روحانی بھی۔ جسمانی فتنے تو اس طرح ہو سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی وجہ سے اور ان کے اختیار کردہ منکرات و فواحش کا انکار کرنے سے جسمانی سزائیں بھگتنا پڑ سکتی ہیں جیسا کہ دنیا دار، نفس پرست بادشاہوں اور اصحاب اقتدار کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ان کے دین کو خطرہ ہوتا ہے، یعنی حکمرانوں کی موافقت کرنے سے یا ان کی بے راہ روی اور منکرات پر خاموش رہنے سے دین سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔ (۴) ’’وہ غافل ہو گیا‘‘ کیونکہ شکار پتا نہیں کہاں کہاں بھاگتا پھرے۔ ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں، دوسرے سے تیسرے میں وہکذا، لہٰذا اس کے پیچھے پیچھے پھرنے والا شخص اپنے گھر بار سے دور ہوجائے گا۔ گھریلو کام پڑے رہ جائیں گے۔ ایسا شخص نماز روزے کا پابند بھی نہیں رہ سکتا۔ پھر شکار ملے یا نہ ملے۔ گویا وہ دنیا سے بھی گیا اور آخرت سے بھی۔ (۱) اس حدیث مبارکہ سے بادیہ نشینی اور صحرا نشینی کی مذمت کا پہلو نکلتا ہے، اور وہ اس طرح کہ ایسا شخص زیادہ تر اہل علم کی مجلس سے دور ہی رہتا ہے، اسی طرح وہ اخلاق فاضلہ سے بھی دور ہوتا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ صحرا نشین شخص جمعہ وجماعت اور اس کی دیگر خیر و برکات اور فہم دین کی مجالس و محافل سے بھی اکثر و بیشتر الگ تھلگ رہتا ہے۔ (۲) شرعاً ایک حد تک شکار کرنے کی اجازت ہے، تاہم یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ کسی انسان کا محض شکار کا ہو کر رہ جانا انتہائی مذموم ہے، اس لیے کہ ایسا شخص اپنے دینی اور دنیوی واحباب و فرائض سے غافل ہو جاتا ہے۔ شکار کے لیے جانا بالکل ممنوع نہیں۔ اگر شکار ممنوع ہوتا تو رسول اللہﷺ حضرت عدی بن حاتم اور ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کو اس کی اجازت نہ دیتے۔ المختصر اعتدال میں رہتے ہوئے شکار کرنا درست ہے، افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ (۳)حدیث مذکور سے حکمرانوں اور صاحب اختیار واقتدار لوگوں کا کاسہ لیسی کرنے اور ان کے دروازوں پر حاضری دینے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ملوک وسلاطین کا قرب اچھے بھلے انسان کو فتنوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ فتنے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں جسمانی بھی اور روحانی بھی۔ جسمانی فتنے تو اس طرح ہو سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی وجہ سے اور ان کے اختیار کردہ منکرات و فواحش کا انکار کرنے سے جسمانی سزائیں بھگتنا پڑ سکتی ہیں جیسا کہ دنیا دار، نفس پرست بادشاہوں اور اصحاب اقتدار کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ان کے دین کو خطرہ ہوتا ہے، یعنی حکمرانوں کی موافقت کرنے سے یا ان کی بے راہ روی اور منکرات پر خاموش رہنے سے دین سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔ (۴) ’’وہ غافل ہو گیا‘‘ کیونکہ شکار پتا نہیں کہاں کہاں بھاگتا پھرے۔ ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں، دوسرے سے تیسرے میں وہکذا، لہٰذا اس کے پیچھے پیچھے پھرنے والا شخص اپنے گھر بار سے دور ہوجائے گا۔ گھریلو کام پڑے رہ جائیں گے۔ ایسا شخص نماز روزے کا پابند بھی نہیں رہ سکتا۔ پھر شکار ملے یا نہ ملے۔ گویا وہ دنیا سے بھی گیا اور آخرت سے بھی۔