سنن النسائي - حدیث 4302

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ الْإِنْسِيَّةِ تَسْتَوْحِشُ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْحُلَيْفَةِ مِنْ تِهَامَةَ، فَأَصَابُوا إِبِلًا وَغَنَمًا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُخْرَيَاتِ الْقَوْمِ فَعَجَّلَ أَوَّلُهُمْ فَذَبَحُوا، وَنَصَبُوا الْقُدُورَ، فَدُفِعَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالْقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَّمَ بَيْنَهُمْ، فَعَدَلَ عَشْرًا مِنَ الشَّاءِ بِبَعِيرٍ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَدَّ بَعِيرٌ، وَلَيْسَ فِي الْقَوْمِ إِلَّا خَيْلٌ يَسِيرَةٌ، فَطَلَبُوهُ فَأَعْيَاهُمْ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4302

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل گھریلو جانور وحشی بن جائے ( جنگلی جانور کی طرح بھاگ جائے ) تو ؟ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ میں تھے۔ لوگوں کو کچھ اونٹ اور بکریاں ملیں۔ رسول اللہ میں تھے۔ لوگوں کے آخر میں تھے۔ لشکر کے ابتدائی لوگوں نے جلدی کرتے ہوئے ان جانوروں کو ذبح کیا اور ہانڈیاں(یا دیگیں) چڑھا دیں۔ جب رسول اللہﷺ ان کے پاس پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ دیگیں فرمائی الٹ دی جائیں، پھر آپ نے غنیمت ان میں تقسیم فرمائی اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اس دور ان میں ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اس دور ان میں ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ لوگوں کے پاس خال خال گھوڑے تھے۔ لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ قابو نہ آسکا۔ ایک آدمی نے اس کو تیر مارا تو وہ رک گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ان گھریلو جانوروں میں بھی بعض کبھی کبھی وحشی بن جاتے(جنگلی جانوروں کی طرح انسانوں سے بھاگنے لگتے) ہیں، لہٰذا اگر کوئی جانور قابو نہ آئے تو اس سے یہی سلوک کرو۔‘‘
تشریح : 1۔گھریلو جانور جب وحشی بن جائے اور انسانوں سے متنفر ہو کر بھاگ کھڑا ہو تو اس پر وحشی(جنگلی) جانور والا حکم لگے گا۔ ایسی صورت میں جب اس قسم کے جانور پر قابو پانا اور اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اسے خشکی کے شکار کی طرح ذخمی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ذبح کرنے سے پہلے مر جانے کی صورت میں اس پر جنگلی شکاری جانوروں والا حکم ہی لاگو ہوگا، یعنی زخمی ہونے کے بعد زندہ قابو آنے کی صورت میں اسے ذبح کرنا ضروری ہو گا جبکہ اس سے پہلے مر جانے کی صورت میں، اگر اسے اللہ کا نام لے کر تیریا گولی وغیرہ ماری گئی ہو تو وہ حلال سمجھا جائے گا اور اس گوشت کھانا درست ہو گا۔ جمہور اہل علم کاقول ہے۔2۔مشترکہ مال میں‘اجازت کے بغیر انفرادی اور شخصی تصرف ناجائز ہے اگرچہ وہ مال تھوڑا یہی ہو، خواہ ضرورت ماری گئی ہو تو وہ حلال میں، اجازت کے بغیر انفرادی اور شخصی تصرف نا جائز ہے اگر چہ وہ مال تھوڑا ہی ہو، خواہ ضرورت کا تقاضا یہی کیوں نہ ہو۔ 3۔یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کمال درجے کی اطاعت رسول اللہﷺ کی واضح دلیل ہے کہ سخت بھو کے ہونے کے باوجود انھوں نے ابلتی ہانڈیاں الٹا دیں لیکن رسول اللہﷺ کے حکم سے سر موانحراف نہیں کیا۔ 4۔شرعی مصلحت کا تقاضا ہو تو حاکم وقت رعایا کو سزا دے سکتا ہے، خواہ اس صورت میں مال ضائع ہی کیوں نہ ہوتا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ شرعی مصلحت ہی غالب ہو۔ محض اپنی اَنا کی تسکین کے لیے سزا دینا مقصود نہ ہو۔ 5۔اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مخلوط اور ملے جلے غنیمت میں ہر چیزک کی الگ الگ تقسیم ضروری نہیں بلکہ تعدیل و تقویم(مختلف اشیاء میں کمی بیشی کر کے انھیں قیمتاََ ایک دوسرے کے برابر قرار دینا) بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا تھا۔ 6۔اصول یہ ہے کہ گھریلو جانوروں کو قابو کر کے حلق باندھ کر اس کے حلق میں چھری کی نوک یا نیز وغیرہ مار کر اسے نحر کیا جائے۔ گھریلو جانوروں کو شکار کی طرح تیر مار کر ذبح نہیں کرنا چاہیے، البتہ جنگلی جانور چونکہ انسانوں کے قابو میں آتے، لہٰذا ان کے لیے یہی طریقہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیر پھینکا جائے، جہاں بھی جا لگے۔ جب وہ خون نکلنے سے کمزور ہو جائے تو اس کو پکڑلے اور ذبح کر لے لیکن اگر وہ اسی تیرے بے جان ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔7۔’’تہامہ کا ذوالحلیفہ‘‘اشارہ ہے کہ یہاں وہ ذوالحلیفہ مراد نہیں جو مدینہ کا میقات ہے اور جہاں احرام باندھا جاتا ہےبلکہ یہ اور ذوالحلیفہ ہے۔8۔’’ذبح کیا‘‘ نبیﷺ کی اجازت کے بغیر، حالانکہ مال غنیمت امیر کی معرفت تقسیم ہونا چاہیے۔9۔’’دس بکریوں‘‘ معلوم ہوا دس بکریوں ایک اونٹ کے برابر ہیں، لہٰذا اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں۔10۔’’خال خال گھوڑے تھے‘‘ یعنی کا تعاقب کرنے اور اسے پکڑنے لے لیے گھوڑے مہیا نہ ہو سکے۔ اور گھوڑوں کے بغیر اسے پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔11۔’’بھاگنے لگتے ہیں‘‘ یعنی وحشت محسوس کرتے ہیں۔ عربی میں لفظ استعمال ہوا ہے جو کی جمع ہے۔ اس سکے معنی غیر مانوس، وحشتی، بدکنے اور بھاگنے والے جانور کے ہیں۔ چونکہ جنگلی جانور انسان سے غیر مانوس ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی بھاگنے ہیں، اس لیے انھیں اوابد کہا جاتا ہے۔ 1۔گھریلو جانور جب وحشی بن جائے اور انسانوں سے متنفر ہو کر بھاگ کھڑا ہو تو اس پر وحشی(جنگلی) جانور والا حکم لگے گا۔ ایسی صورت میں جب اس قسم کے جانور پر قابو پانا اور اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اسے خشکی کے شکار کی طرح ذخمی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ذبح کرنے سے پہلے مر جانے کی صورت میں اس پر جنگلی شکاری جانوروں والا حکم ہی لاگو ہوگا، یعنی زخمی ہونے کے بعد زندہ قابو آنے کی صورت میں اسے ذبح کرنا ضروری ہو گا جبکہ اس سے پہلے مر جانے کی صورت میں، اگر اسے اللہ کا نام لے کر تیریا گولی وغیرہ ماری گئی ہو تو وہ حلال سمجھا جائے گا اور اس گوشت کھانا درست ہو گا۔ جمہور اہل علم کاقول ہے۔2۔مشترکہ مال میں‘اجازت کے بغیر انفرادی اور شخصی تصرف ناجائز ہے اگرچہ وہ مال تھوڑا یہی ہو، خواہ ضرورت ماری گئی ہو تو وہ حلال میں، اجازت کے بغیر انفرادی اور شخصی تصرف نا جائز ہے اگر چہ وہ مال تھوڑا ہی ہو، خواہ ضرورت کا تقاضا یہی کیوں نہ ہو۔ 3۔یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کمال درجے کی اطاعت رسول اللہﷺ کی واضح دلیل ہے کہ سخت بھو کے ہونے کے باوجود انھوں نے ابلتی ہانڈیاں الٹا دیں لیکن رسول اللہﷺ کے حکم سے سر موانحراف نہیں کیا۔ 4۔شرعی مصلحت کا تقاضا ہو تو حاکم وقت رعایا کو سزا دے سکتا ہے، خواہ اس صورت میں مال ضائع ہی کیوں نہ ہوتا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ شرعی مصلحت ہی غالب ہو۔ محض اپنی اَنا کی تسکین کے لیے سزا دینا مقصود نہ ہو۔ 5۔اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مخلوط اور ملے جلے غنیمت میں ہر چیزک کی الگ الگ تقسیم ضروری نہیں بلکہ تعدیل و تقویم(مختلف اشیاء میں کمی بیشی کر کے انھیں قیمتاََ ایک دوسرے کے برابر قرار دینا) بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا تھا۔ 6۔اصول یہ ہے کہ گھریلو جانوروں کو قابو کر کے حلق باندھ کر اس کے حلق میں چھری کی نوک یا نیز وغیرہ مار کر اسے نحر کیا جائے۔ گھریلو جانوروں کو شکار کی طرح تیر مار کر ذبح نہیں کرنا چاہیے، البتہ جنگلی جانور چونکہ انسانوں کے قابو میں آتے، لہٰذا ان کے لیے یہی طریقہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیر پھینکا جائے، جہاں بھی جا لگے۔ جب وہ خون نکلنے سے کمزور ہو جائے تو اس کو پکڑلے اور ذبح کر لے لیکن اگر وہ اسی تیرے بے جان ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔7۔’’تہامہ کا ذوالحلیفہ‘‘اشارہ ہے کہ یہاں وہ ذوالحلیفہ مراد نہیں جو مدینہ کا میقات ہے اور جہاں احرام باندھا جاتا ہےبلکہ یہ اور ذوالحلیفہ ہے۔8۔’’ذبح کیا‘‘ نبیﷺ کی اجازت کے بغیر، حالانکہ مال غنیمت امیر کی معرفت تقسیم ہونا چاہیے۔9۔’’دس بکریوں‘‘ معلوم ہوا دس بکریوں ایک اونٹ کے برابر ہیں، لہٰذا اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں۔10۔’’خال خال گھوڑے تھے‘‘ یعنی کا تعاقب کرنے اور اسے پکڑنے لے لیے گھوڑے مہیا نہ ہو سکے۔ اور گھوڑوں کے بغیر اسے پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔11۔’’بھاگنے لگتے ہیں‘‘ یعنی وحشت محسوس کرتے ہیں۔ عربی میں لفظ استعمال ہوا ہے جو کی جمع ہے۔ اس سکے معنی غیر مانوس، وحشتی، بدکنے اور بھاگنے والے جانور کے ہیں۔ چونکہ جنگلی جانور انسان سے غیر مانوس ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی بھاگنے ہیں، اس لیے انھیں اوابد کہا جاتا ہے۔