سنن النسائي - حدیث 4301

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ الرُّخْصَةُ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَاءٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً، فَأَفْتِنِي فِيهَا، قَالَ: «مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ كِلَابُكَ فَكُلْ» قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ؟ قَالَ: «وَإِنْ قَتَلْنَ». قَالَ: أَفْتِنِي فِي قَوْسِي، قَالَ: «مَا رَدَّ عَلَيْكَ سَهْمُكَ فَكُلْ» قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيَّ؟ قَالَ: «وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيْكَ، مَا لَمْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ سَهْمٍ غَيْرَ سَهْمِكَ أَوْ تَجِدْهُ قَدْ صَلَّ» يَعْنِي قَدْ أَنْتَنَ قَالَ ابْنُ سَوَاءٍ، وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي مَالِكٍ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4301

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل شکاری کتے کی قیمت ( لینے دینے ) کی رخصت حضرت عمر و بن شعیب کے پردادا متحرم(حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس سدھائے ہوئے کتے ہیں۔ مجھے ان کے بارے میں بتایئے؟ آپ نے فرمایا:’’جو جانور وہ تیرے لیے پکڑ رکھیں، تو کھا سکتا ہے،‘‘ میں نے کہا: اگر چہ وہ اسے قتل کر دیں؟ آپ نے فرمایا:’خواہ وہ اسے قتل کر دیں۔‘‘ اس آدمی نے کہا: مجھے میرے تیر کمان کے بارے میں بتایئے؟ آپ نے فرمایا:’’تیرا تیر جو کچھ شکار کرے، وہ تو کھا سکتا ہے۔‘‘ اس نے کہا: اگرچہ وہ شکار مجھ سے غائب ہو جائے ۔ جب تک تو اس میں اپنے تیر کے علاوہ کسی اور تیر کا نشان نہ پائے یا وہ بدبودار نہ ہوجائے۔‘‘ ابن سواء نے کہا: میں نے یہ حدیث(جس طرح سعید کے واسطے سے سنی ہے، اسی طرح واسطے کے بغیر، براہ راست بھی) ابو مالک عبید اللہ بن اخنس سے سنی ہے۔
تشریح : 1۔سکھلائے اور سدھائے ہوئے کتے سے شکار کرنا درست ہے۔2۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو شکار کتے نے مالک کے لیے پکڑا ہو اور اسے مار ڈالا ہو لیکن خود اس میں سے نہ کھایا ہو تو شکاری کتے کا مارا ہوا جانور کھایاجا سکتا ہے اگرچہ اسے ذبح نہ کیا جا سکا ہو بلکہ وہ ذبح کیے جانے سے پہلے ہی مر گیا ہو، البتہ اس میں یہ شرط ضروری ہے کہ کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہو۔3۔ یہ حدیث تیر کے ساتھ کیے ہوئے شکار اور اس علاوہ آلات شکار کے ذریعے سے کیے ہوئے شکار حلت پر دلالت کرتی ہے بشر طیکہ شکار اس آلہ شکار کی دھار سے قتل ہوا ہو نہ کہ اس چوٹ سے۔ مزید بر آں یہ بھی ضروری ہے کہ تیر وغیرہ چلاتے وقت اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو جیسا کہ پہلے بھی اس کا ذکر کیا جاچکا ہے۔4۔ اگر شکاری شخص اپنے زخمی شکار کو چند دن بعد مردہ حالت میں پاتا ہے جبکہ اس میں ابھی بو پیدا نہ ہوئی ہو تو وہ اسے کھا سکتا ہے، البتہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس شکار کو کسی اور شکار کو کسی اور شکاری نے ذخمی نہ کیا ہو۔ یہ اس لیے کہ اس صورت میں یہ بات معلوم ہی نہیں ہو سکتی کہ دوسرے شکاری نے تیر وغیرہ چھوڑتے وقت اللہ کانام لیا تھا یا نہیں‘لہذا ایسے شکار کو کھانا جو مشکوک ہو کس طرح جائز ہو سکتاہے؟5۔غائب ہو جائے‘‘یعنی تیر کھانے کے بعد وہ جانور بھاگ جائے اور پھر کسی اور جگہ بے جان لے تو کیا اسے کھایا سکتا ہے۔؟6۔’’بدبو دار نہ ہو جائے‘‘ظاہر الفاظ سٰے معلوم ہوتا ہےکہ اسے کھایانہیں جاسکتا حالانکہ بدبو کسی جانور یا گوشت کو حرام نہیں کرتی لیکن چونکہ بدبودار چیز میں طبی طور پر مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں، لہٰذا اسے کھانا مناسب نہیں، سوائے اشد ضرورت کے ایسی چیز استعمال نہ کی جائے۔ 7اس حدیث کا متعلقہ باب سے تو کوئی تعلق نہیں، البتہ اصل کتاب تعلق ہے۔ ممکن ہے۔ یہ باب ضمنی ہو۔ 1۔سکھلائے اور سدھائے ہوئے کتے سے شکار کرنا درست ہے۔2۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو شکار کتے نے مالک کے لیے پکڑا ہو اور اسے مار ڈالا ہو لیکن خود اس میں سے نہ کھایا ہو تو شکاری کتے کا مارا ہوا جانور کھایاجا سکتا ہے اگرچہ اسے ذبح نہ کیا جا سکا ہو بلکہ وہ ذبح کیے جانے سے پہلے ہی مر گیا ہو، البتہ اس میں یہ شرط ضروری ہے کہ کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہو۔3۔ یہ حدیث تیر کے ساتھ کیے ہوئے شکار اور اس علاوہ آلات شکار کے ذریعے سے کیے ہوئے شکار حلت پر دلالت کرتی ہے بشر طیکہ شکار اس آلہ شکار کی دھار سے قتل ہوا ہو نہ کہ اس چوٹ سے۔ مزید بر آں یہ بھی ضروری ہے کہ تیر وغیرہ چلاتے وقت اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو جیسا کہ پہلے بھی اس کا ذکر کیا جاچکا ہے۔4۔ اگر شکاری شخص اپنے زخمی شکار کو چند دن بعد مردہ حالت میں پاتا ہے جبکہ اس میں ابھی بو پیدا نہ ہوئی ہو تو وہ اسے کھا سکتا ہے، البتہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس شکار کو کسی اور شکار کو کسی اور شکاری نے ذخمی نہ کیا ہو۔ یہ اس لیے کہ اس صورت میں یہ بات معلوم ہی نہیں ہو سکتی کہ دوسرے شکاری نے تیر وغیرہ چھوڑتے وقت اللہ کانام لیا تھا یا نہیں‘لہذا ایسے شکار کو کھانا جو مشکوک ہو کس طرح جائز ہو سکتاہے؟5۔غائب ہو جائے‘‘یعنی تیر کھانے کے بعد وہ جانور بھاگ جائے اور پھر کسی اور جگہ بے جان لے تو کیا اسے کھایا سکتا ہے۔؟6۔’’بدبو دار نہ ہو جائے‘‘ظاہر الفاظ سٰے معلوم ہوتا ہےکہ اسے کھایانہیں جاسکتا حالانکہ بدبو کسی جانور یا گوشت کو حرام نہیں کرتی لیکن چونکہ بدبودار چیز میں طبی طور پر مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں، لہٰذا اسے کھانا مناسب نہیں، سوائے اشد ضرورت کے ایسی چیز استعمال نہ کی جائے۔ 7اس حدیث کا متعلقہ باب سے تو کوئی تعلق نہیں، البتہ اصل کتاب تعلق ہے۔ ممکن ہے۔ یہ باب ضمنی ہو۔