سنن النسائي - حدیث 4288

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ امْتِنَاعُ الْمَلَائِكَةِ مِنْ دُخُولِ بَيْتٍ فِيهِ كَلْبٌ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي مَيْمُونَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْبَحَ يَوْمًا وَاجِمًا، فَقَالَتْ لَهُ مَيْمُونَةُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ لَقَدِ اسْتَنْكَرْتُ هَيْئَتَكَ مُنْذُ الْيَوْمَ، فَقَالَ: «إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ وَعَدَنِي أَنْ يَلْقَانِي اللَّيْلَةَ، فَلَمْ يَلْقَنِي، أَمَا وَاللَّهِ مَا أَخْلَفَنِي» قَالَ: فَظَلَّ يَوْمَهُ كَذَلِكَ ثُمَّ وَقَعَ فِي نَفْسِهِ جَرْوُ كَلْبٍ تَحْتَ نَضَدٍ لَنَا، فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهِ مَاءً فَنَضَحَ بِهِ مَكَانَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ كُنْتَ وَعَدْتَنِي أَنْ تَلْقَانِي الْبَارِحَةَ» قَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةٌ، قَالَ: فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَأَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4288

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں ( ناجائز ) کتا ہو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے نبی اکرمﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ایک رسول اللہﷺ بڑے افسردہ سے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آج صبح سے آپ کی حالت عجیب سی محسوس ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمایا:’’جبریل ﷺ نے مجھ سے آج رات ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ ملے نہیں۔ اللہ کی قسم! انھوں نے کبھی مجھ سے وعدہ خلافی نہیں کی۔‘‘ آپ سارا دن اسی طرح رہے، پھر آپ کو خیال آیا کہ ہماری بستروں والی چار پائی کے نیچے کتے کا ایک پلا بیٹھا ہے۔ آپ نے حکم دیا اور اسے نکال دیا گیا، پھر آپ نے اپنے دست مبارک سے وہاں کچھ پانی چھڑک دیا۔ جب شام ہوئی تو جبریل ﷺ آپ سے ملے۔ رسول اللہﷺ نے انھیں فرمایا:’’آپ نے تو مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ گزشتہ رات مجھ سے ملیں گے؟‘‘ وہ کہنے لگے: ہاں، لیکن ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتایا تصور ہو۔ اس دن سے رسول اللہﷺ نے کتوں کے قتل کا حکم دے دیا۔
تشریح : 1) مسئلہ واضح ہے کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو۔ لیکن یہ بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ جس گھر میں بوجہ ضرورت کتا رکھا جائے وہ اس سے متشنی ہے کوینکہ اس کی اجازت شارع علیہ السلام نے خود دی ہے۔ اور آپ علیہ السلام کا ہر کام منشائے الٰہی کے مطابق ہی ہوتا ہے۔2) اس حدیث مبارکہ سے وعدہ وفا کرنے کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ وعدہ وفائی ضروری ہے۔ جس سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ وعدے کا منتظر رہتا ہے۔ اندازہ لگایئے ایک بار جبریل امین علیہ السلام وعدے کے مطابق نہیں آئے تو رسول اللہ ﷺ سارا دن پریشان رہے۔ 3)معلوم ہوا فرشتے بھی قوانین الٰہی کے پابند ہیں، نیز انبیاء کے لیے بھی قانون بدلا نہیں جاتا رونہ رسول اکرم ﷺ کے لیے قانون بدل دیا جاتا۔ 1) مسئلہ واضح ہے کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو۔ لیکن یہ بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ جس گھر میں بوجہ ضرورت کتا رکھا جائے وہ اس سے متشنی ہے کوینکہ اس کی اجازت شارع علیہ السلام نے خود دی ہے۔ اور آپ علیہ السلام کا ہر کام منشائے الٰہی کے مطابق ہی ہوتا ہے۔2) اس حدیث مبارکہ سے وعدہ وفا کرنے کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ وعدہ وفائی ضروری ہے۔ جس سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ وعدے کا منتظر رہتا ہے۔ اندازہ لگایئے ایک بار جبریل امین علیہ السلام وعدے کے مطابق نہیں آئے تو رسول اللہ ﷺ سارا دن پریشان رہے۔ 3)معلوم ہوا فرشتے بھی قوانین الٰہی کے پابند ہیں، نیز انبیاء کے لیے بھی قانون بدلا نہیں جاتا رونہ رسول اکرم ﷺ کے لیے قانون بدل دیا جاتا۔