سنن النسائي - حدیث 4285

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ صِفَةُ الْكِلَابِ الَّتِي أُمِرَ بِقَتْلِهَا صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِيمَ، وَأَيُّمَا قَوْمٍ اتَّخَذُوا كَلْبًا لَيْسَ بِكَلْبِ حَرْثٍ، أَوْ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ، فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4285

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل کس قسم کے کتے مارنے کا حکم دیا گیا تھا؟ حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی ایک مخلوق ہیں تو میں ان سب کے قتل کا حکم دیتا ۔ اب تم خالص سیاہ کتے کو قتل کرو ۔ جو لوگ بھی ایسا کتا رکھیں جو نہ تو کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو اور نہ شکار کے لیے تو ان کی نیکیوں سے ہر روز ایک قیراط کی کمی ہوتی رہے گی۔
تشریح : 1-کھيتي اور جانوروں کي حفاظت کے ليے اور شکار کرنے کي خاطر کتا رکھا جا سکتا ہے ?اس صورت ميں انسان گناہ گار نہيں ہوگا-اسي طرح اشد ضرورت کي بنا پر گھر کي رکھوالي کے ليے بھي اس کي اجازت ہو سکتي ہے جس نے مذکورہ صورتوں کے علاوہ کتا رکھا تو وہ شخص بہت گناہ گار ہوگا اور نہايت خسارے ميں ہے اس ليے کہ بلا ضرورت کتا رکھنے والے شخص کے نيک اعمال ميں سے روزانہ ايک قيراط وزن کم کرديا جاتا ہےذرا سوچيے کہ يہ کس قدر عظيم نقصان ہے? 2-انسان کو نيک اعمال کر کےان کي حفاظت کرتے رہنا چاہيے‘اور ايسے برے اعمال سے گريز کرنا چاہيے?جنکي وجہ سے نيک اعمال کي بربادي لازم آتي ہودوسرے لفظوں ميں ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ نيک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کي ترغيب بھي اس حديث ميں معلوم ہوتي ہے? 3-اس حديث ميں اللہ تعالي? کے اس عظيم لطف کي طرف بھي اشارہ ہے جو وہ اپني معزز مخلوق انسان پر فرماتا ہے‘يعني جس چيز سے لوگوں کو کسي قسم کا فائدہ ہو سکتا ہ اسے ان کے ليے مباح اور جائز فرما دينا? 4?اس سے يہ بھي معلوم ہوا کہ رسول ا? ? نے اپني امت کے ليے ان کي معاش و معاد کے تمام امور، جن کے وہ محتاج اور ضرورت مند تھے، بيان فرما ديے 5? اس حديث مبارکہ سے يہ اصول اور قاعدہ معلوم ہوا کہ نفع نقصان دونوں کي حامل چيز ميں اگر مصلحت راجح ہو تو اسے ترجيح حاصل ہوگي، يعني مصلحتِ راجحہ کا لحاظ رکھا جائے گا? تفصيلہ اس اجمال کي يہ ہے کہ کتے ميں نفع و نقصان کي دونوں صفات پائي جاتي ہيں? عام طور پر اس ميں نقصان و فساد والي صفت کا غلبہ ہوتا ہے، اس ليے کتا رکھنے سے احتراز کا حکم ديا گيا ہے، تا ہم جہاں اس لوگوں کو فائدہ پہنچنا راجح تھا، وہاں عام حکم سے استشنا فرما ديا گيا 6?ايک مخلوق‘‘ عربي يعني امتوں ميں سے ايک امت، کے الفاظ ہيں? ا? تعالي? نے کسي مخلوق کو بے فائدہ نہيں بنايا، خواہ وقتي طور پر کسي کے ليے نقصان دہ ثانت ہو مگر مجموعي طور پر ہر مخلوق انسان کے ليے بلا واسطہ با لواسبہ مفيد ہے، مثلاََ: کتے حفاظت کاکام ديتے ہيں? شکار بھي کرتے ہيں? بعض ايسے مقامات ہوتے ہيں جہاں کتوں کے علاوہ شکار کيا ہي نہيں جا سکتا? اور بھي بہت سے فوائد ہيں جن کو ا? تعالي? ہي جانتا ہے جو خالق ورازق ہے، اس ليے کسي بھي مخلوق کو مکمل طور پر ختم کر دينا حکمت الہ?يہ کے منافي ہے، نيز يہ انساني بقا کے بھي خلاف ہے، لہ?ذا صرف موذي کو ختم کيا جائے، مثلاََ: باو? لا کتا، بہت کاٹنے والا کتايا ا?وارہ اور فالتو کتا وغيرہ? 7?’’خالص سياہ کتا‘‘ يہ بہت ڈراو?نا ہوتا ہے? ايک حديث ميں يوں بيان کيا گيا ہے کہ’’کالا کتا شيطان کہا جاسکتا ہے? جس طرح برے اور شرارتي انسان کو شيطان کہہ ديا جاتا ہے، اسي طرح ڈراو?نے اور موذي کتے کو بھي شيطان کہا جا سکتا ہے? شيطان کسي کا نام نہيں بلکہ يہ وصف ہے? جس ميں بھي پايا جائے، وہ شيطان ہے?’’ 8?ايک قيراط‘‘ ايک قيراط سے مراد کيا ہے؟ اس ميں تفصيل ہے اور وہ اس طرح کہ قيراط کا اطلاق دو طرح کے وزن پر ہوتا تھا? ايک انتہائي معمولي وزن پر اور دوسرے انتہائي غير معمولي وزن پر? معمولي وزن پر اس طرح کہ ايک دينار بيسک قيراط کا ہوتا ہے، اور دينار ساڑھے چار ماشے، يعني ???.? گرام کا ہوتا ہے? گويا ايک قيراط کا وزن تقربياََ ??? ملي گرام بنتا ہے? دوسري قسم کا قيراط وہ ہے جسے رسول اللہ ? نے احد پہاڑ کے برابر قرار ديا ہے? اس کي مقدار کو اللہ تعالي? ہي جانتا ہے? يہاں اس حديث ميں قيراط سے مراد کون سا قيراط ہے؟ تو اس کي بابت اہل علم کي ا?راء مختلف ہيں? بعض اہل علم نے اس معمولي وزن مراد ليا ہے جبکہ بعضج نے غير معمولي وزن? ہمارا رجحان پہلي رائے کي طرف ہے? يہاں اس حديث ميں قيراط سے مراد ليا ہے جبکہ بعض نے غير معمولي وزن? ہمارا رجحان پہلي رائے کي طرف ہے? اس کي ايک وجہ تو يہ ہے کہ شريعت مطہرہ کا مزاج نرمي کرنا ہے، سختي اور شدت نہيں اور نرمي پہلي صورت ميں ہے نہ کہ دوسري ميں? دوسري وجہ يہ ہے کہ رسول اللہ ? نے مطلقاََ قيراط فرمايا ہے، کسي قسم کا تعين نہيں کيا، يہ تو معلوم بات ہے کہ اللہ تعالي? کا فضل و کرم اور اس کي رحمت، اس کے غصے اور سزا سے کہيں زيادہ وسيع ہے، اس ليے سزا ميں تخفيقف اور فضل ميں تکثير والے ضابطے کي بنياد پر بھي يہي بات راجح معلوم ہوتي ہے کہ قيراط سے مراد پہلي صورت ہوگي اور يہي ارحم الراحمين کے فضل و کرم اور اس کي رحمت و مہرباني کا تقاضا ہے? اس سب کچھ کے باوجود حتمي اور يقيني طور پر صرف ايک بات کہي جا سکتي ہے کہ اللہ ہي کے علم ميں ہے کہ اس حديث ميں قيراط سے مراد کونسا قيراط ہے؟ بہر حال ايک مومن شخص کو اس سے بھي بچنا چاہيے کہ وہ کسي ايسے کام کا مرتکب ہو کہ جس کي وجہ سے اس کے نيک اعمال ميں سے زرہ بھر کمي کر دي جائے? 9’’کمي ہوتي رہے گي‘‘ يعني ہر روز کي ہوئي نيکيوں ميں سے اتني مقدار ضائع ہوتي رہے گي کيونکہ ضرورتک کے بغير کتا گھر والوں کے ليے بھي نقصان دہ ہے اور گزرنے والوں کے ليے بھي? مزيد بر ا?ں يہ کہ کتے ميں باو?لا ہونے کے امکانات بھي ہوتے ہيں? ايسي صورت ميں وہ لوگوں کے ليے خوف ناک اذيت اور موت کا سبب بھي بنے گا? بہر حال بے فائدہ کتا رکھنے والے کے ليے يہ حديث بہت بڑي و عيد ہے 1-کھيتي اور جانوروں کي حفاظت کے ليے اور شکار کرنے کي خاطر کتا رکھا جا سکتا ہے ?اس صورت ميں انسان گناہ گار نہيں ہوگا-اسي طرح اشد ضرورت کي بنا پر گھر کي رکھوالي کے ليے بھي اس کي اجازت ہو سکتي ہے جس نے مذکورہ صورتوں کے علاوہ کتا رکھا تو وہ شخص بہت گناہ گار ہوگا اور نہايت خسارے ميں ہے اس ليے کہ بلا ضرورت کتا رکھنے والے شخص کے نيک اعمال ميں سے روزانہ ايک قيراط وزن کم کرديا جاتا ہےذرا سوچيے کہ يہ کس قدر عظيم نقصان ہے? 2-انسان کو نيک اعمال کر کےان کي حفاظت کرتے رہنا چاہيے‘اور ايسے برے اعمال سے گريز کرنا چاہيے?جنکي وجہ سے نيک اعمال کي بربادي لازم آتي ہودوسرے لفظوں ميں ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ نيک اعمال کرنے اور برے اعمال سے بچنے کي ترغيب بھي اس حديث ميں معلوم ہوتي ہے? 3-اس حديث ميں اللہ تعالي? کے اس عظيم لطف کي طرف بھي اشارہ ہے جو وہ اپني معزز مخلوق انسان پر فرماتا ہے‘يعني جس چيز سے لوگوں کو کسي قسم کا فائدہ ہو سکتا ہ اسے ان کے ليے مباح اور جائز فرما دينا? 4?اس سے يہ بھي معلوم ہوا کہ رسول ا? ? نے اپني امت کے ليے ان کي معاش و معاد کے تمام امور، جن کے وہ محتاج اور ضرورت مند تھے، بيان فرما ديے 5? اس حديث مبارکہ سے يہ اصول اور قاعدہ معلوم ہوا کہ نفع نقصان دونوں کي حامل چيز ميں اگر مصلحت راجح ہو تو اسے ترجيح حاصل ہوگي، يعني مصلحتِ راجحہ کا لحاظ رکھا جائے گا? تفصيلہ اس اجمال کي يہ ہے کہ کتے ميں نفع و نقصان کي دونوں صفات پائي جاتي ہيں? عام طور پر اس ميں نقصان و فساد والي صفت کا غلبہ ہوتا ہے، اس ليے کتا رکھنے سے احتراز کا حکم ديا گيا ہے، تا ہم جہاں اس لوگوں کو فائدہ پہنچنا راجح تھا، وہاں عام حکم سے استشنا فرما ديا گيا 6?ايک مخلوق‘‘ عربي يعني امتوں ميں سے ايک امت، کے الفاظ ہيں? ا? تعالي? نے کسي مخلوق کو بے فائدہ نہيں بنايا، خواہ وقتي طور پر کسي کے ليے نقصان دہ ثانت ہو مگر مجموعي طور پر ہر مخلوق انسان کے ليے بلا واسطہ با لواسبہ مفيد ہے، مثلاََ: کتے حفاظت کاکام ديتے ہيں? شکار بھي کرتے ہيں? بعض ايسے مقامات ہوتے ہيں جہاں کتوں کے علاوہ شکار کيا ہي نہيں جا سکتا? اور بھي بہت سے فوائد ہيں جن کو ا? تعالي? ہي جانتا ہے جو خالق ورازق ہے، اس ليے کسي بھي مخلوق کو مکمل طور پر ختم کر دينا حکمت الہ?يہ کے منافي ہے، نيز يہ انساني بقا کے بھي خلاف ہے، لہ?ذا صرف موذي کو ختم کيا جائے، مثلاََ: باو? لا کتا، بہت کاٹنے والا کتايا ا?وارہ اور فالتو کتا وغيرہ? 7?’’خالص سياہ کتا‘‘ يہ بہت ڈراو?نا ہوتا ہے? ايک حديث ميں يوں بيان کيا گيا ہے کہ’’کالا کتا شيطان کہا جاسکتا ہے? جس طرح برے اور شرارتي انسان کو شيطان کہہ ديا جاتا ہے، اسي طرح ڈراو?نے اور موذي کتے کو بھي شيطان کہا جا سکتا ہے? شيطان کسي کا نام نہيں بلکہ يہ وصف ہے? جس ميں بھي پايا جائے، وہ شيطان ہے?’’ 8?ايک قيراط‘‘ ايک قيراط سے مراد کيا ہے؟ اس ميں تفصيل ہے اور وہ اس طرح کہ قيراط کا اطلاق دو طرح کے وزن پر ہوتا تھا? ايک انتہائي معمولي وزن پر اور دوسرے انتہائي غير معمولي وزن پر? معمولي وزن پر اس طرح کہ ايک دينار بيسک قيراط کا ہوتا ہے، اور دينار ساڑھے چار ماشے، يعني ???.? گرام کا ہوتا ہے? گويا ايک قيراط کا وزن تقربياََ ??? ملي گرام بنتا ہے? دوسري قسم کا قيراط وہ ہے جسے رسول اللہ ? نے احد پہاڑ کے برابر قرار ديا ہے? اس کي مقدار کو اللہ تعالي? ہي جانتا ہے? يہاں اس حديث ميں قيراط سے مراد کون سا قيراط ہے؟ تو اس کي بابت اہل علم کي ا?راء مختلف ہيں? بعض اہل علم نے اس معمولي وزن مراد ليا ہے جبکہ بعضج نے غير معمولي وزن? ہمارا رجحان پہلي رائے کي طرف ہے? يہاں اس حديث ميں قيراط سے مراد ليا ہے جبکہ بعض نے غير معمولي وزن? ہمارا رجحان پہلي رائے کي طرف ہے? اس کي ايک وجہ تو يہ ہے کہ شريعت مطہرہ کا مزاج نرمي کرنا ہے، سختي اور شدت نہيں اور نرمي پہلي صورت ميں ہے نہ کہ دوسري ميں? دوسري وجہ يہ ہے کہ رسول اللہ ? نے مطلقاََ قيراط فرمايا ہے، کسي قسم کا تعين نہيں کيا، يہ تو معلوم بات ہے کہ اللہ تعالي? کا فضل و کرم اور اس کي رحمت، اس کے غصے اور سزا سے کہيں زيادہ وسيع ہے، اس ليے سزا ميں تخفيقف اور فضل ميں تکثير والے ضابطے کي بنياد پر بھي يہي بات راجح معلوم ہوتي ہے کہ قيراط سے مراد پہلي صورت ہوگي اور يہي ارحم الراحمين کے فضل و کرم اور اس کي رحمت و مہرباني کا تقاضا ہے? اس سب کچھ کے باوجود حتمي اور يقيني طور پر صرف ايک بات کہي جا سکتي ہے کہ اللہ ہي کے علم ميں ہے کہ اس حديث ميں قيراط سے مراد کونسا قيراط ہے؟ بہر حال ايک مومن شخص کو اس سے بھي بچنا چاہيے کہ وہ کسي ايسے کام کا مرتکب ہو کہ جس کي وجہ سے اس کے نيک اعمال ميں سے زرہ بھر کمي کر دي جائے? 9’’کمي ہوتي رہے گي‘‘ يعني ہر روز کي ہوئي نيکيوں ميں سے اتني مقدار ضائع ہوتي رہے گي کيونکہ ضرورتک کے بغير کتا گھر والوں کے ليے بھي نقصان دہ ہے اور گزرنے والوں کے ليے بھي? مزيد بر ا?ں يہ کہ کتے ميں باو?لا ہونے کے امکانات بھي ہوتے ہيں? ايسي صورت ميں وہ لوگوں کے ليے خوف ناک اذيت اور موت کا سبب بھي بنے گا? بہر حال بے فائدہ کتا رکھنے والے کے ليے يہ حديث بہت بڑي و عيد ہے