سنن النسائي - حدیث 4270

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ صَيْدُ الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أُرْسِلُ الْكَلْبَ الْمُعَلَّمَ فَيَأْخُذُ، فَقَالَ: «إِذَا أَرْسَلْتَ الْكَلْبَ الْمُعَلَّمَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ فَأَخَذَ فَكُلْ» قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ؟ قَالَ: «وَإِنْ قَتَلَ» قُلْتُ: أَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ قَالَ: «إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ، فَلَا تَأْكُلْ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4270

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل سدھائے ہوئے کتے کا شکار حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ میں اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑتا ہوں، وہ اسے پکڑ لے تو؟ آپ نے فرمایا: ’’جب تو اپنا سدھایا ہوا کتا چھوڑے اور بسم اللہ بھی پڑھے، پھر وہ پکڑ لے تو تو کھا سکتا ہے۔‘‘ میں نے کہا: اگرچہ وہ قتل کر دے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگرچہ قتل کر دے۔‘‘ میں نے کہا: میں معراض تیر چلاتا ہوں تو پھر؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر وہ نوک کے بل لگے تو تو کھا سکتا ہے اور اگر وہ کسی او جانب سے لگے تو پھر نہ کھا۔‘‘
تشریح : سدھائے ہوئے اور تربیت یافتہ کتے سے شکار کرنا جائز ہے، نیز سدھائے اور غیر سدھائے کتوں کے شکار کا فرق ہے۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ تیر اور اس قسم کی دیگر چیزوں، مثلاً: بندوق وغیرہ کے ذریعے سے شکار کرنا بھی جائز ہے، تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تیر یا بندوق کی گولی شکار کیے جانے والے پرندے یا جانور کا خون نکال دے، اسے محض چوٹ کے انداز پہ نہ مار ڈالے، یعنی ان کے ذریعے سے بھی اس طرح سے شکار کیا جائے جس طرح دھار دار چیز سے کیا جاتا ہے۔ اگر تیر یا بندوق وغیرہ بسم اللہ پڑھ کر چلائی جائے اور شکار مر جائے تو وہ شکار حلال ہے بصورت دیگر ناجائز ہو گا، تاہم اگر بندوق چلاتے وقت شکاری اللہ کا نام لینا بھول جائے تو ایسی صورت میں اس شکار کو کھانا جائز ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بھول چوک معاف فرما دی ہے۔ و اللہ اعلم۔ سدھائے ہوئے اور تربیت یافتہ کتے سے شکار کرنا جائز ہے، نیز سدھائے اور غیر سدھائے کتوں کے شکار کا فرق ہے۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ تیر اور اس قسم کی دیگر چیزوں، مثلاً: بندوق وغیرہ کے ذریعے سے شکار کرنا بھی جائز ہے، تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تیر یا بندوق کی گولی شکار کیے جانے والے پرندے یا جانور کا خون نکال دے، اسے محض چوٹ کے انداز پہ نہ مار ڈالے، یعنی ان کے ذریعے سے بھی اس طرح سے شکار کیا جائے جس طرح دھار دار چیز سے کیا جاتا ہے۔ اگر تیر یا بندوق وغیرہ بسم اللہ پڑھ کر چلائی جائے اور شکار مر جائے تو وہ شکار حلال ہے بصورت دیگر ناجائز ہو گا، تاہم اگر بندوق چلاتے وقت شکاری اللہ کا نام لینا بھول جائے تو ایسی صورت میں اس شکار کو کھانا جائز ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بھول چوک معاف فرما دی ہے۔ و اللہ اعلم۔