سنن النسائي - حدیث 4268

كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ الْأَمْرُ بِالتَّسْمِيَةِ عِنْدَ الصَّيْدِ صحيح أَخْبَرَنَا الْإِمَامُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ بِمِصْرَ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّيْدِ فَقَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَاذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ فَإِنْ أَدْرَكْتَهُ لَمْ يَقْتُلْ فَاذْبَحْ وَاذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنْ أَدْرَكْتَهُ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ فَقَدْ أَمْسَكَهُ عَلَيْكَ فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ أَكَلَ مِنْهُ فَلَا تَطْعَمْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ وَإِنْ خَالَطَ كَلْبُكَ كِلَابًا فَقَتَلْنَ فَلَمْ يَأْكُلْنَ فَلَا تَأْكُلْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَيُّهَا قَتَلَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4268

کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل شکار کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا حکم حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے شکار کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تو اپنا کتا (شکار کے پیچھے) چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر چھوڑ، پھر اگر تو شکار کو اس حال میں پا لے کہ کتے نے اسے قتل نہیں کیا تو اللہ کا نام لے کر اسے ذبح کر لے۔ اور اگر شکار کو اس حال میں پائے کہ کتا اسے قتل کر چکا ہے لیکن اس نے کچھ نہیں کھایا تو وہ شکار تو کھا سکتا ہے کیونکہ اس نے اسے تیرے لیے پکڑا ہے اور اگر تو دیکھے کہ کتے نے اس میں سے کچھ کھا لیا ہے تو تو اس میں سے کچھ بھی نہ کھا کیونکہ کتے نے تو اسے اپنے لیے پکڑا ہے۔ اور اگر تیرے کتے کے ساتھ اور کتے بھی مل جائیں، پھر وہ مل کر کسی جانور کو قتل کر دیں، پھر خواہ وہ اسے نہ بھی کھائی تو بھی تو اس سے کچھ نہ کھا کیونکہ تجھے علم نہیں کہ ان میں سے کس کتے نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) جب شکاری کتا شکار کے لیے چھوڑا جائے تو اس وقت بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے کیونکہ یہ رسول اللہﷺ کا حکم ہے۔ یہی حکم تیرا اور دوسرے آلاتِ شکار کا ہے کہ ان کے ذریعے سے بھی بسم اللہ پڑھ کر ہی شکار کیا جائے۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اس طریقے سے شکار کرنا جس کا حدیث شریف میں ذکر ہے، مباح اور جائز کام ہے۔ یہ اس لہو و لعب کی قسم سے نہیں جس سے منع کیا گیا ہے۔ اگر شکار کرنا ممنوع ہوتا تو رسول اللہﷺ اس کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔ (۳) شوقیہ طور پر کتے پالنا جائز نہیں، تاہم بغرض شکار اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح کتوں کی خرید و فروخت ویسے تو ممنوع ہے البتہ ایسے ’’سدھائے ہوئے‘‘ کتے کی خرید و فروخت کی بعض فقہاء اجازت دیتے ہیں۔ (۴) سکھلایا ہوا کتاب اگر بسم اللہ پڑھ کر شکار پر چھوڑا جائے اور وہ مالک کی خاطر ہی شکار کرے اور اس اثنا میں شکار ذبح کرنے سے پہلے مر جائے تو بھی اس کو کھانا درست ہے۔ ہاں، البتہ شکار اگر زندہ حالت میں مل جائے تو اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ شکاری اور تربیت یافتہ کتے کے جھوٹے کا بھی وہی حکم ہے جو غیر تربیت یافتہ کتے کے جھوٹے کا حکم ہے کہ وہ حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے اس شکار کے کھانے کی اجازت نہیں دی جسے کتے نے کھایا ہو، خواہ تھوڑا سا حصہ ہی سہی۔ حکمت اس کی یہی معلوم ہوتی ہے کہ امت اور مخلوق کے حقیقی خیر خواہ انہیں کتے کے زہریلے جراثیم کے خطرناک نتائج سے محفوظ رکھنا چاہیے ہیں …ﷺ… مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (سنن نسائی (اردو) ج: ۱، ص: ۳۱۸-۳۲۲ طبع دار السلام) (۵) اس حدیث سے ضمناً یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایک جانور کو شکار کرنے کے لیے کتا چھوڑا جائے لیکن کتا اس کے علاوہ کوئی دورا جانور مالک کی خاطر شکار کر لے تو اس کو کھانا بھی جائز ہے کیونکہ کتے نے اسے اپنے مالک کے لیے شکار کیا ہے۔ (۶) کتے کا شکار جائز ہے مگر اس کے لیے دو شرطیں ہیں: بسم اللہ پڑھ کر کتا چھوڑا جائے اور اس کے ساتھ کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جس کو چھوڑتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو، کتا شکار کے لیے سدھایا گیا ہو، یعنی وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑے نہ کہ اپنے لیے، اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ شکار کو صرف پکڑے، کھائے نہ۔ اگر کھا لے تو وہ سدھایا ہوا شمار نہ ہو گا۔ بعض علماء نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ وہ کتاب شکار کو بھنبھوڑ کر نہ مار دے بلکہ دانت لگائے اور جانور خون نکلنے سے ختم ہو ورنہ بھنبھوڑنے سے مرنے والا جانور حلال نہ ہو گا۔ (۷) جس شخص کا ذبیحہ حلال ہے، اسی کے چھوڑے ہوئے کتے کا شکار حلال ہے، مثلاً: مسلمان، یہودی، عیسائی۔ اور جس شخص کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کے چھوڑے ہوئے کتے کا شکار بھی حلال نہیں، مثلاً: بت پرست، مجوسی، آتش پرست وغیرہ۔ و اللہ اعلم۔ (۱) جب شکاری کتا شکار کے لیے چھوڑا جائے تو اس وقت بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے کیونکہ یہ رسول اللہﷺ کا حکم ہے۔ یہی حکم تیرا اور دوسرے آلاتِ شکار کا ہے کہ ان کے ذریعے سے بھی بسم اللہ پڑھ کر ہی شکار کیا جائے۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اس طریقے سے شکار کرنا جس کا حدیث شریف میں ذکر ہے، مباح اور جائز کام ہے۔ یہ اس لہو و لعب کی قسم سے نہیں جس سے منع کیا گیا ہے۔ اگر شکار کرنا ممنوع ہوتا تو رسول اللہﷺ اس کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔ (۳) شوقیہ طور پر کتے پالنا جائز نہیں، تاہم بغرض شکار اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح کتوں کی خرید و فروخت ویسے تو ممنوع ہے البتہ ایسے ’’سدھائے ہوئے‘‘ کتے کی خرید و فروخت کی بعض فقہاء اجازت دیتے ہیں۔ (۴) سکھلایا ہوا کتاب اگر بسم اللہ پڑھ کر شکار پر چھوڑا جائے اور وہ مالک کی خاطر ہی شکار کرے اور اس اثنا میں شکار ذبح کرنے سے پہلے مر جائے تو بھی اس کو کھانا درست ہے۔ ہاں، البتہ شکار اگر زندہ حالت میں مل جائے تو اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ شکاری اور تربیت یافتہ کتے کے جھوٹے کا بھی وہی حکم ہے جو غیر تربیت یافتہ کتے کے جھوٹے کا حکم ہے کہ وہ حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے اس شکار کے کھانے کی اجازت نہیں دی جسے کتے نے کھایا ہو، خواہ تھوڑا سا حصہ ہی سہی۔ حکمت اس کی یہی معلوم ہوتی ہے کہ امت اور مخلوق کے حقیقی خیر خواہ انہیں کتے کے زہریلے جراثیم کے خطرناک نتائج سے محفوظ رکھنا چاہیے ہیں …ﷺ… مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (سنن نسائی (اردو) ج: ۱، ص: ۳۱۸-۳۲۲ طبع دار السلام) (۵) اس حدیث سے ضمناً یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایک جانور کو شکار کرنے کے لیے کتا چھوڑا جائے لیکن کتا اس کے علاوہ کوئی دورا جانور مالک کی خاطر شکار کر لے تو اس کو کھانا بھی جائز ہے کیونکہ کتے نے اسے اپنے مالک کے لیے شکار کیا ہے۔ (۶) کتے کا شکار جائز ہے مگر اس کے لیے دو شرطیں ہیں: بسم اللہ پڑھ کر کتا چھوڑا جائے اور اس کے ساتھ کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جس کو چھوڑتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو، کتا شکار کے لیے سدھایا گیا ہو، یعنی وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑے نہ کہ اپنے لیے، اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ شکار کو صرف پکڑے، کھائے نہ۔ اگر کھا لے تو وہ سدھایا ہوا شمار نہ ہو گا۔ بعض علماء نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ وہ کتاب شکار کو بھنبھوڑ کر نہ مار دے بلکہ دانت لگائے اور جانور خون نکلنے سے ختم ہو ورنہ بھنبھوڑنے سے مرنے والا جانور حلال نہ ہو گا۔ (۷) جس شخص کا ذبیحہ حلال ہے، اسی کے چھوڑے ہوئے کتے کا شکار حلال ہے، مثلاً: مسلمان، یہودی، عیسائی۔ اور جس شخص کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کے چھوڑے ہوئے کتے کا شکار بھی حلال نہیں، مثلاً: بت پرست، مجوسی، آتش پرست وغیرہ۔ و اللہ اعلم۔