سنن النسائي - حدیث 4239

كِتَابُ الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ جُلُودُ الْمَيْتَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى شَاةٍ مَيِّتَةٍ مُلْقَاةٍ، فَقَالَ: «لِمَنْ هَذِهِ؟» فَقَالُوا: لِمَيْمُونَةَ. فَقَالَ: «مَا عَلَيْهَا لَوِ انْتَفَعَتْ بِإِهَابِهَا» قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ فَقَالَ: «إِنَّمَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَكْلَهَا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4239

کتاب: فرع اور عتیرہ سے متعلق احکام و مسائل مردار کا چمڑا حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے جسے باہر پھینک دیا گیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ جس کی ہے؟ ‘‘ لوگوں نے کہا: (ام المومنین) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی۔ آپ نے فرمایا: ‘‘ اگر وہ اس کے چمڑے سے فائدہاٹھا لیتی تو کیا حرج ہوتا؟ ‘‘ لوگوں نے کہا: یہ تو مردہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ اﷲ تعالیٰ نے صرف اس کا (گوشت وغرہ) کھانا حرام کیا ہے۔ ‘‘
تشریح : 1۔باب کے ساتھ حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ مردہ جانور چمڑے کا حکم یہ ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے بشر طیکہ اسے رنگ دیا جائے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ 2۔حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی امام یا ذمہ دار شخص کی بات کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے، یہ اس کے احترام کے منافی نہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھ لیا تھا کہ مردار جانور کے چمڑے سے کس طرح نفع اٹھایا جاسکتا ہے؟ 3۔قابل احترام اور ذی وقار شخصیت کو بھی سوال، بحث و تحقیق کے وقت برہم نہیں ہونا چاہیے اور نہ وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ کا بہترین اسوہ ہے کہ آپ نے لوگوں کیک پوچھنے لپر بلاتا مل بتا دیا۔ 4۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب اﷲ عموم کی تخصیص حدیث شریف سے ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق طور پر فرمایا گیا ہے: مردار کی حرمت کا حکم اس کے ہر ہر جز کو شامل ہے اور ہر حال میں شامل ہے۔ حدیث اور سنت نے اس عام حکم میں یہ تخصیص کردی ہے کہ مردار جانور چمڑا رنگ لیا جائے تو اس کا استعمال حلال ہوجاتا ہے۔ 1۔باب کے ساتھ حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ مردہ جانور چمڑے کا حکم یہ ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے بشر طیکہ اسے رنگ دیا جائے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ 2۔حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی امام یا ذمہ دار شخص کی بات کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو اس سے پوچھا جاسکتا ہے، یہ اس کے احترام کے منافی نہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھ لیا تھا کہ مردار جانور کے چمڑے سے کس طرح نفع اٹھایا جاسکتا ہے؟ 3۔قابل احترام اور ذی وقار شخصیت کو بھی سوال، بحث و تحقیق کے وقت برہم نہیں ہونا چاہیے اور نہ وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ کا بہترین اسوہ ہے کہ آپ نے لوگوں کیک پوچھنے لپر بلاتا مل بتا دیا۔ 4۔اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب اﷲ عموم کی تخصیص حدیث شریف سے ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید میں مطلق طور پر فرمایا گیا ہے: مردار کی حرمت کا حکم اس کے ہر ہر جز کو شامل ہے اور ہر حال میں شامل ہے۔ حدیث اور سنت نے اس عام حکم میں یہ تخصیص کردی ہے کہ مردار جانور چمڑا رنگ لیا جائے تو اس کا استعمال حلال ہوجاتا ہے۔