سنن النسائي - حدیث 4230

كِتَابُ الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ بَابُ لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ حسن أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْفَرَعَ، قَالَ: «حَقٌّ، فَإِنْ تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكُونَ بَكْرًا، فَتَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ تُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذْبَحَهُ، فَيَلْصَقَ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ، فَتُكْفِئَ إِنَاءَكَ، وَتُولِهُ نَاقَتَكَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالْعَتِيرَةُ قَالَ: «الْعَتِيرَةُ حَقٌّ» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ هُمْ أَرْبَعَةُ إِخْوَةٍ، أَحَدُهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَبِشْرٌ، وَشَرِيكٌ وَآخَرُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4230

کتاب: فرع اور عتیرہ سے متعلق احکام و مسائل ( اس کا بیان کہ ) فرع اور عتیرہ درست نہیں حضرت زیدبن اسلم سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! فرع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ (اﷲ کے نام پر) ٹھیک ہے لیکن اگر تو اسے (ذبح کرنے کی بجائے) چھوڑ دے (بڑا ہونے دے) حتی کہ وہ جوان اونٹ ہوجائے، پھر تو اسے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں کسی کو سواری کے لیے دے یا کسی بیوہ کو دے دے تو یہ بہتر ہے اس کے کہ تو اسے (پیدا ہوتے ہی) ذبح کرڈالے جبکہ اس کا گوشت اس کے بالوں ہی سے لگا ہو، اور تو اپنے (دودھ کے) برتن کو اوندھا کردے اور اپنی اونٹنی (اس کی ماں) کو بلاوجہ پریشان کرے۔ ‘‘ لوگوں نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول! عتیرہ؟ آپ نے فرمایا: ’‘’عتیرہ بھی حق ہے۔ (وہ بھی ٹھیک ہے)۔ ‘‘ ابو عبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) نے فرمایا: (راوی حدیث) ابو علی حنفی (اور اس کے بھائیٌ) وہ چار ہیں۔ ان میں ایک ابوبکر ہے، ایک بشر ہے اور ایک شریک ہے، نیز ایک اور ہے (اس کا نام عمیر۔ )
تشریح : آپ کا مقصود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا تو ٹھیک ہے مگر وہ کام کرنا چاہیے جس کے کرنے سے زیادہ فائدہ ہو۔ لوگ بچہ پید ہوتے ہی اسے ذبح کردیتے لیکن اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ گوشت صرف چھیپھڑوں کی صورت میں ہوتا تھا جو کھانے کے قابل بھی نہیں ہوتا تھا۔ اور اس قدر قلیل کہ گوشت پوست میں امتیاز مشکل سے ہوتا تھا۔ اونٹنی غم کی وجہ سے دودھ سے بھی جواب دے دیتی تھی۔ گویا کسی کو بھی فائدہ نہ ہوا۔ الٹا گھر کا نقصان ہوگا و، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسے بڑا ہونے دیا جائے حتی کہ جب وہ سواری کے قابل ہوجائے تو پھر جہاد فی سبیل اﷲ می سواری کے لیے دیا جائے ، کسی بیوہ کودے دیا جائے یا وہ جانور کسی محتاج ومسکین کودے دیا جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔2۔ فرع، یعنی جانور کا پہلا بچہ پیدا ہونے یا سو جانور پورے ہونے پر جانور ذبح کرنا، درست ہے۔ اسلام سے پہلے اس قسم کا جانور بتوں اور معبودانِ باطلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور انھی کی خاطر ذبح کیا جاتا، لیکن اسلام میں اس تصور کو جڑے اکھیڑ دیا گیا۔ غیر اﷲ کے لیے جانور ذبح کرنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بطور صدقہ جانور ذبح کرنا مستحب ٹھہرایا گیا۔ یہ اب بھی مستحب اور حصول ثواب ودفع مصیبت کا بہترین ذریعہ ہے۔3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کرنا صرف یہ نہیں کہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا جائے بلکہ فی سبیل اﷲ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں بہت سی بہتر صورتیں موجود ہیں جو صدقہ کرنے والے کے لیے کہیں زیادہ اجر وثواب کا سبب ہیں۔4۔ جانوروں کے زائدہ بچوں کو ذبح کرنا یا ابھی ان کی ماؤں سے جدا کرنا قطعاََ پسند یدہ نہیں۔ ایک تو اس لیے کہ اس سے ماں کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ بے چین وبے قرار ہوتی ہے اور دوسرا اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے اس بچے کی ماں کا دودھ بھی کم ہو جاتا ہے۔ آپ کا مقصود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا تو ٹھیک ہے مگر وہ کام کرنا چاہیے جس کے کرنے سے زیادہ فائدہ ہو۔ لوگ بچہ پید ہوتے ہی اسے ذبح کردیتے لیکن اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ گوشت صرف چھیپھڑوں کی صورت میں ہوتا تھا جو کھانے کے قابل بھی نہیں ہوتا تھا۔ اور اس قدر قلیل کہ گوشت پوست میں امتیاز مشکل سے ہوتا تھا۔ اونٹنی غم کی وجہ سے دودھ سے بھی جواب دے دیتی تھی۔ گویا کسی کو بھی فائدہ نہ ہوا۔ الٹا گھر کا نقصان ہوگا و، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسے بڑا ہونے دیا جائے حتی کہ جب وہ سواری کے قابل ہوجائے تو پھر جہاد فی سبیل اﷲ می سواری کے لیے دیا جائے ، کسی بیوہ کودے دیا جائے یا وہ جانور کسی محتاج ومسکین کودے دیا جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔2۔ فرع، یعنی جانور کا پہلا بچہ پیدا ہونے یا سو جانور پورے ہونے پر جانور ذبح کرنا، درست ہے۔ اسلام سے پہلے اس قسم کا جانور بتوں اور معبودانِ باطلہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور انھی کی خاطر ذبح کیا جاتا، لیکن اسلام میں اس تصور کو جڑے اکھیڑ دیا گیا۔ غیر اﷲ کے لیے جانور ذبح کرنا حرام قرار دیا گیا جبکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بطور صدقہ جانور ذبح کرنا مستحب ٹھہرایا گیا۔ یہ اب بھی مستحب اور حصول ثواب ودفع مصیبت کا بہترین ذریعہ ہے۔3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کرنا صرف یہ نہیں کہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا جائے بلکہ فی سبیل اﷲ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں بہت سی بہتر صورتیں موجود ہیں جو صدقہ کرنے والے کے لیے کہیں زیادہ اجر وثواب کا سبب ہیں۔4۔ جانوروں کے زائدہ بچوں کو ذبح کرنا یا ابھی ان کی ماؤں سے جدا کرنا قطعاََ پسند یدہ نہیں۔ ایک تو اس لیے کہ اس سے ماں کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ بے چین وبے قرار ہوتی ہے اور دوسرا اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے اس بچے کی ماں کا دودھ بھی کم ہو جاتا ہے۔