كِتَابُ الْعَقِيقَةِ مَتَى يُعَقُّ؟ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّ غُلَامٍ رَهِينٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُسَمَّى»
کتاب: عقیقہ سے متعلق احکام و مسائل
عقیقہ کب کیا جائے؟
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’ ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گر وی ہوتاہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، سر منڈویا جائے اور اس کا نام رکھاجائے۔ ‘‘
تشریح :
1۔گروی ہوتا ہے‘‘ جس طرح گروی شدہ چیز کو معاوضہ دے کر چھڑانا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح بچے کی آزادی کے لیے عقیقہ کرنا ضروری ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ’’ آزادی‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ گروی بشہ اگر فوت ہوگیا تو عہ ماں باپ کی سفارش نہیں کرے گا کیونکہ گروی شدہ چیز سے مالک فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے چھڑانے کے بعد ہی فائدہ حاصل کرسکتا ہے جبکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے شیطان کے چنگل سے چھڑانا مراد لیا ہے۔ 2۔ساتویں دن‘‘ گویا اس پہلے عقیقہ نہیں ہوسکتا۔ بالفرض اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو امام مالک کا خیال ہے کہ بعد میں نہیں کرنا شاہیے کیونکہ اس کا وقت گزر گیا، جیسے قربانی کا وقت گزر جائے بعد میں قربانی نہیں کی جاسکتی۔ دیگر ائمہ کا خیال ہے کہ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو اگلے ساتویں دن، یعنی چودھویں دن عقیقہ کیا جائے،۔ اگر اس دن بھی عقیقہ نہ ہو سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے۔ اس مفہوم کی ایک مرفوع حدیث بیہقی میں آتی ہے مگر اس کا راوی ضعیف ہے۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کا قول بھی اسی مفہوم کے ساتھ مستدرک حاکم میں آتا ہے، لیکن وہ بھی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے تفصیل کے لیے دیکھیے: لیے سنت ساتویں دن ہی ہے، تاہم اگر اس روز ممکن نہ ہوتو بعد میں کسی روز بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حکم بھی عقیقے سیت متعلق احکام ومسائل قربانی والا ہوگا، یعنی اس سے سب کھا سکتے ہیں۔ گھر والے بھی اور دوسرے بھی۔ میرا بھی اور فقیر بھی۔3۔ ’’ نام رکھا جائے‘‘ ساتویں دن نام رکھنا مستحب ہے‘ البتہ ساتویں دن سے پہلے اور بعد میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔4۔ اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے ہی فوت ہو جائے ظاہربات یہی ہے کہ اس کا عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عقیقے کے وقت تک زندہ نہیں رہا۔
1۔گروی ہوتا ہے‘‘ جس طرح گروی شدہ چیز کو معاوضہ دے کر چھڑانا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح بچے کی آزادی کے لیے عقیقہ کرنا ضروری ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ’’ آزادی‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ گروی بشہ اگر فوت ہوگیا تو عہ ماں باپ کی سفارش نہیں کرے گا کیونکہ گروی شدہ چیز سے مالک فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے چھڑانے کے بعد ہی فائدہ حاصل کرسکتا ہے جبکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے شیطان کے چنگل سے چھڑانا مراد لیا ہے۔ 2۔ساتویں دن‘‘ گویا اس پہلے عقیقہ نہیں ہوسکتا۔ بالفرض اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو امام مالک کا خیال ہے کہ بعد میں نہیں کرنا شاہیے کیونکہ اس کا وقت گزر گیا، جیسے قربانی کا وقت گزر جائے بعد میں قربانی نہیں کی جاسکتی۔ دیگر ائمہ کا خیال ہے کہ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہوسکے تو اگلے ساتویں دن، یعنی چودھویں دن عقیقہ کیا جائے،۔ اگر اس دن بھی عقیقہ نہ ہو سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے۔ اس مفہوم کی ایک مرفوع حدیث بیہقی میں آتی ہے مگر اس کا راوی ضعیف ہے۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کا قول بھی اسی مفہوم کے ساتھ مستدرک حاکم میں آتا ہے، لیکن وہ بھی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے تفصیل کے لیے دیکھیے: لیے سنت ساتویں دن ہی ہے، تاہم اگر اس روز ممکن نہ ہوتو بعد میں کسی روز بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حکم بھی عقیقے سیت متعلق احکام ومسائل قربانی والا ہوگا، یعنی اس سے سب کھا سکتے ہیں۔ گھر والے بھی اور دوسرے بھی۔ میرا بھی اور فقیر بھی۔3۔ ’’ نام رکھا جائے‘‘ ساتویں دن نام رکھنا مستحب ہے‘ البتہ ساتویں دن سے پہلے اور بعد میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔4۔ اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے ہی فوت ہو جائے ظاہربات یہی ہے کہ اس کا عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ عقیقے کے وقت تک زندہ نہیں رہا۔